محراب خوش قیام سے آگے نکل گئی
وحشت دیے کی شام سے آگے نکل گئی
خلوت کے فاصلے سے نہ بیٹھوں تو کیا کروں
محفل ہی اہتمام سے آگے نکل گئی
فارغ نہ جانیے مجھے، مصروفِ جنگ ہوں
اُس چُپ سے جو کلام سے آگے نکل گئی
جب معرکہ ہوا تو مِری تیغِ درگزر
شمشیرِ انتقام سے آگے نکل گئی
تم ساتھ ہو تو دھوپ کا احساس تک نہیں
یہ دوپہر تو شام سے آگے نکل گئی
مرنے کا کوئی خوف، نہ جینے ک آرزو
کیا زندگی دوام سے آگے نکل گئی
عاصم! وہ کوئی دوست نہیں تھا، جو ٹھیرتا
دنیا تھی، اپنے کام سے آگے نکل گئی
وحشت دیے کی شام سے آگے نکل گئی
خلوت کے فاصلے سے نہ بیٹھوں تو کیا کروں
محفل ہی اہتمام سے آگے نکل گئی
فارغ نہ جانیے مجھے، مصروفِ جنگ ہوں
اُس چُپ سے جو کلام سے آگے نکل گئی
جب معرکہ ہوا تو مِری تیغِ درگزر
شمشیرِ انتقام سے آگے نکل گئی
تم ساتھ ہو تو دھوپ کا احساس تک نہیں
یہ دوپہر تو شام سے آگے نکل گئی
مرنے کا کوئی خوف، نہ جینے ک آرزو
کیا زندگی دوام سے آگے نکل گئی
عاصم! وہ کوئی دوست نہیں تھا، جو ٹھیرتا
دنیا تھی، اپنے کام سے آگے نکل گئی
لیاقت علی عاصم
No comments:
Post a Comment