Friday, 17 October 2014

محراب خوش قیام سے آگے نکل گئی

محراب خوش قیام سے آگے نکل گئی
وحشت دیے کی شام سے آگے نکل گئی
خلوت کے فاصلے سے نہ بیٹھوں تو کیا کروں
محفل ہی اہتمام سے آگے نکل گئی
فارغ نہ جانیے مجھے، مصروفِ جنگ ہوں
اُس چُپ سے جو کلام سے آگے نکل گئی
جب معرکہ ہوا تو مِری تیغِ درگزر
شمشیرِ انتقام سے آگے نکل گئی
تم ساتھ ہو تو دھوپ کا احساس تک نہیں
یہ دوپہر تو شام سے آگے نکل گئی
مرنے کا کوئی خوف، نہ جینے ک آرزو
کیا زندگی دوام سے آگے نکل گئی
عاصم! وہ کوئی دوست نہیں تھا، جو ٹھیرتا
دنیا تھی، اپنے کام سے آگے نکل گئی

لیاقت علی عاصم

No comments:

Post a Comment