دکھائی دیتے ہیں ان لکیروں میں سائے کوئی
مگر بلانے سے وقت لوٹے نہ آئے کوئی
میرے محلے کا آسماں سونا ہو گیا ہے
پتنگ اڑائے فلک پہ پیچے لڑائے کوئی
کنویں پہ رکھی ہوئی ہیں کانسی کی کلسیاں
وہ زرد پتے جو پیڑ سے ٹوٹ کر گرے تھے
کہاں گئے بہتے پانیوں میں بلائے کوئی
ضعیف برگد کے ہاتھ میں رعشہ آ گیا ہے
جھٹائیں آنکھوں پہ گر رہی ہیں اٹھائے کوئی
مزار پر کھول کر گریباں دعائیں مانگیں
جو آئے اب کے تو لوٹ کے پھر نہ جائے کوئی
گلزار
No comments:
Post a Comment