Friday 17 October 2014

دکھائی دیتے ہیں ان لکیروں میں سائے کوئی

دکھائی دیتے ہیں ان لکیروں میں سائے کوئی
مگر بلانے سے وقت لوٹے نہ آئے کوئی
میرے محلے کا آسماں سونا ہو گیا ہے
پتنگ اڑائے فلک پہ پیچے لڑائے کوئی
کنویں پہ رکھی ہوئی ہیں کانسی کی کلسیاں
پر گلیل سے آٹے والے چھرے بجائے کوئی
وہ زرد پتے جو پیڑ سے ٹوٹ کر گرے تھے
کہاں گئے بہتے پانیوں میں بلائے کوئی
ضعیف برگد کے ہاتھ میں رعشہ آ گیا ہے
جھٹائیں آنکھوں پہ گر رہی ہیں اٹھائے کوئی
مزار پر کھول کر گریباں دعائیں مانگیں
جو آئے اب کے تو لوٹ کے پھر نہ جائے کوئی

گلزار

No comments:

Post a Comment