Friday 17 October 2014

مجھے خلا ميں بھٹکنے کی آرزو ہی سہی

مجھے خلا ميں بھٹکنے کی آرزو ہی سہی
کہ تُو مِلے نہ مِلے تيری جستجو ہی سہی
قريب آ شبِ تنہائی تجھ سے پيار کريں
تمام دن کی تھکن کا علاج تُو ہی سہی
بڑے خلوص سے ملتا ہے جب بھی ملتا ہے
وہ بے وفا تو نہيں ہے بہانہ جُو ہی سہی
مگر وہ اَبر سمندر پہ کيوں برستا ہے؟
زمين بانجھ سہی، خاک بے نمُو ہی سہی
تم اپنے داغ سرِ پيرہن کی بات کرو
ہمارا دامنِ صد چاک بے رفو ہی سہی
يہ ناز کم تو نہيں ہے کہ اُن سے مل آئے
وہ ايک پَل کو سرِ راہ گفتگو ہی سہی
جو اپنے آپ سے شرمائے کس سے بات کرے 
ميں آئينے کی طرح اُس کے رُوبرُو ہی سہی
کسی طرح تو يہ تنہائيوں کی شام کٹے
وصالِ يار نہيں قربتِ عدو ہی سہی
يہ سجدۂ سرِ مقتل کا وقت ہے محسنؔ
خود اپنے خونِ رگِ جاں سے اب وضو ہی سہی

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment