Wednesday 22 October 2014

ہر سمت پریشاں تری آمد کے قرینے

ہر سمت پریشاں تری آمد کے قرینے
دھوکے دیے کیا کیا ہمیں بادِ سحری نے
ہر منزلِ غربت پہ گماں ہوتا ہے گھر کا
بہلایا ہے ہر گام بہت در بدری نے
تھے بزم میں سب دودِ سرِ بزم سے شاداں
بے کار جلایا ہمیں روشن نظری نے
میخانے میں عاجز ہوئے آزردہ دِلی سے
مسجد کا نہ رکھا ہمیں آشفتہ سری نے
یہ جامۂ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا
مہلت ہی نہ دی فیضؔ، کبھی بخیہ گری نے

فیض احمد فیض

No comments:

Post a Comment