ہمیں سے اپنی نوا ہمکلام ہوتی رہی
یہ تیغ اپنے لہو میں نیام ہوتی رہی
مقابلِ صفِ اعداء جسے کیا آغاز
وہ جنگ اپنے ہی دل میں تمام ہوتی رہی
کوئی مسیحا نہ ایفائے عہد کو پہنچا
یہ برہمن کا کرم، وہ عطائے شیخِ حرم
کبھی حیات، کبھی مَے حرام ہوتی رہی
جو کچھ بھی بن نہ پڑا، فیضؔ لُٹ کے یاروں سے
تو رہزنوں سے دعا و سلام ہوتی رہی
فیض احمد فیض
No comments:
Post a Comment