Wednesday, 22 October 2014

ہمیں سے اپنی نوا ہمکلام ہوتی رہی

ہمیں سے اپنی نوا ہمکلام ہوتی رہی
یہ تیغ اپنے لہو میں نیام ہوتی رہی
مقابلِ صفِ اعداء جسے کیا آغاز
وہ جنگ اپنے ہی دل میں تمام ہوتی رہی
کوئی مسیحا نہ ایفائے عہد کو پہنچا
بہت تلاش پسِ قتلِ عام ہوتی رہی
یہ برہمن کا کرم، وہ عطائے شیخِ حرم
کبھی حیات، کبھی مَے حرام ہوتی رہی
جو کچھ بھی بن نہ پڑا، فیضؔ لُٹ کے یاروں سے
تو رہزنوں سے دعا و سلام ہوتی رہی

فیض احمد فیض

No comments:

Post a Comment