Thursday 16 October 2014

تاب جمال رنگ رخ یار ہو نہ ہو

تابِ جمالِ رنگِ رخِ یار، ہو نہ ہو
کل کیا عجب ہے طاقتِ دیدار ہو نہ ہو
منظر میں مت سہی پسِ منظر ہی رکھ مجھے
پھر میرا، تیرے کھیل میں کردار ہو نہ ہو
جتنی کھلی ہے آنکھ، غنیمت سمجھ اسے
کل صبح، کوئی نیند سے بیدار ہو نہ ہو
رکھا ہے بابِ عرضِ تمنا میں اب قدم
 یہ دل، قبولیت کا سزاوار ہو نہ ہو
اپنے قدم، زمین کی جنبش سے جوڑ لے
رستہ کسی کی آنکھ کا، ہموار ہو نہ ہو
جو اختیار میں ہے، وہی کر کے دیکھ لے
ممکن ہے کل کو ہاتھ میں، انکار ہو نہ ہو
مجھ کو بلا رہے ہو تو اس سے بھی پوچھ لو
وہ مجھ کو، دیکھنے کا روادار ہو نہ ہو
اپنا مزاج دھوپ کے سانچے میں ڈھال لے
دشتِ طلب میں سایۂ دیوار، ہو نہ ہو
طاہرؔ بدن کو عجز کی چادر سے ڈھانپ لے
کل، وجہِ افتخار یہ دستار، ہو نہ ہو

سلیم طاہر

No comments:

Post a Comment