Thursday 16 October 2014

کتنا سناٹا ہے اس شہر میں کہرام کے بعد

کتنا سناٹا ہے، اس شہر میں کہرام کے بعد
دل میں دھڑکن ہی نہیں گردشِ ایام کے بعد
دن نکلتے ہی، منڈیروں پہ ابھر آتا ہے
ڈوب جاتا ہے، کہیں دور یہ دل شام کے بعد
حلق میں بوند نہ اترے تو بہک جاتا ہوں
نشہ اترے گا مِرا، دردِ تہِ جام کے بعد
ایک انجانی مسرت سی، ہمیں ملتی ہے
جسم جب ٹوٹنے لگتا ہے کسی کام کے بعد
دن کے ڈھلتے ہی، تِری یاد کچھ ایسے آئی
جیسے جلتے ہیں مزاروں پہ دیئے شام کے بعد
یاد آیا، تِرا زلفوں میں، چمکتا چہرہ
چاند جب جھیل میں ڈوبا ہے کبھی شام کے بعد
اس کو چاہا ہے، یہی جرم ہے اپنا طاہرؔ
اور الزام نہیں، ہم پہ اس الزام کے بعد

سلیم طاہر

No comments:

Post a Comment