Thursday 16 October 2014

پھر جی اٹھے ہیں جس سے وہ امکان تم نہیں

پھر جی اٹھے ہیں جس سے وہ امکان تم نہیں
اب جو بھی کر رہا ہے یہ احسان تم نہیں
بجھتے ہوئے چراغ کی لو جس نے تیز کر دی
وہ اور ہی ہوا ہے میری جان تم نہیں
مجھ میں بدل رہا ہے جو ایک عالمِ خیال
اس لمحۂ جنوں کے نگہبان تم نہیں
پھر یوں ہوا کہ جیسے گِرہ کھل گئی کوئی
مشکل تو بس یہی تھی کے آسان تم نہیں
تم نے سنی نہیں ہے صدائے شکستِ دل
ہم جھیلتے رہے ہیں یہ نقصان تم نہیں
تم سے تو بس نباہ کی صورت نکل پڑی
جس سے ہوئے تھے وعدہ و پیمان تم نہیں
خوش فہمیوں کی بات الگ ہے مگر یہ گھر
جس کے لیے سجا ہے وہ مہمان تم نہیں
یہ عالمِ ظہور ہے ہجرت زدہ سلیمؔ
ہم بھی دکھی ہیں صرف پریشان تم نہیں 

سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment