طنز کرنا ہے مجھ پر، اجی کیجئے
کر رہے ہیں سبھی، آپ بھی کیجئے
ایویں دھوکے میں ہی مارا جاؤں نہ میں
اس لگاوٹ میں تھوڑی کمی کیجئے
میں غلط بات بالکل نہیں مانتا
آپ کیوں کر رہے ہیں مرے واسطے
آپ اپنے لئے شاعرى کیجئے
خاندانی منافق ہیں آپ، اس لئے
دوستوں کی جڑیں کھوکھلی کیجئے
آ گئے آپ کے آستانے پہ ہم
اب بری کیجئے یا بھلی کیجئے
میں کہاں روکتا ہوں ستم سے بھلا
کیجئے کیجئے جان جی! کیجئے
بات بھی کیجئے، دیکھ بھی لیجئے
دیکھ بھی لیجئے، بات بھی کیجئے
اندرونی رعونت پہ پردہ کئے
جس قدر ہو سکے عاجزی کیجئے
اب کوئی نقش فریاد کرتا نہیں
جیسے چاہیں جسے کاغذی کیجئے
آپ کے باپ دادا نے جو کچھ کیا
آپ بھی اس زمیں پر وہی کیجئے
حشر کے دن پہ کیوں ٹالتے ہیں مجھے
جو بھی کرنا ہے میرا ابھی کیجئے
آپ اس کے سوا کر بھی سکتے ہیں کیا
جو ابھی کر رہے ہیں ،یہی کیجئے
چھيڑيے ذکر اس سرخ رو کا یہاں
یعنی محفل کا رنگ آتشی کیجئے
چلئے غالب نہیں، کیا ہوا، میں تو ہوں
آئیے! مجھ پہ طعنہ زنی کیجئے
اب جو روتے ہیں آپ اپنے حالات پر
اور درویش سے دشمنی کیجئے
حال کھیلا ہوں میں آپ کے سامنے
اب مرے حال کی مخبری کیجئے
کیا حسد بھی کوئی کام کرنے کا ہے
دلبری کیجئے، عاشقی کیجئے
میرے ہم عصر تنگ آ کے کہتے ہیں یوں
کوئی تدبیر اس شخص کی کیجئے
لیجئے! چھوڑتا ہوں میں کارِ سخن
میری جانب سے بھی آپ ہی کیجئے
عشق ہو یا علی ہو مرے صاحبو
ان سے ملیے انہیں زندگی کیجئے
علی زریون
No comments:
Post a Comment