ہم گرچہ دل و جان سے بے زار ہوئے ہیں
خوش ہیں کہ تِرے غم کے سزاوار ہوئے ہیں
اٹھے ہیں تِرے در سے اگر صورتِ دیوار
رخصت بھی تو جوں سایۂ دیوار ہوئے ہیں
کیا کہئے نظر آتی ہے کیوں خواب یہ دنیا
کیا جانیے کس خواب سے بیدار ہوئے ہیں
ابھی گناہ کا موسم ہے، آ! شباب میں آ
نشہ اترنے سے پہلے مِری شراب میں آ
دھنک سی خواب سی خوشبو سی پھر برس مجھ پر
نئی غزل کی طرح تُو مِری کتاب میں آ
اٹھا نہ دیر تک احسان موسمِ گل کا
میں زندگی ہوں مجھے جی، مِرے عذاب میں آ
کبھی ممکن کبھی نہیں ممکن
ہر گھڑی تو خوشی نہیں ممکن
ہم نے یہ زندگی سے سیکھا ہے
سب ہے ممکن، مگر سبھی نہیں ممکن
تان ٹوٹے ہمیشہ قسمت پر
جس کو چاہو وہی نہیں ممکن