Wednesday, 15 October 2014

میرے ہوش یوں جو جاتے تو کچھ اور بات ہوتی

میرے ہوش یوں جو جاتے تو کچھ اور بات ہوتی 
وہ نظر سے مے پلاتے تو کچھ اور بات ہوتی 
ہوئیں جلوہ گر بہاریں کِھلے گل چمن میں،لیکن 
وہ جو آ کے مسکراتے تو کچھ اور بات ہوتی 
میرا انجمن میں جانا کوئی اور رنگ لاتا 
مجھے آپ خود بلاتے تو کچھ اور بات ہوتی 
انہیں کیا یہ بات سُوجھی مجھے کس لیے مٹایا 
غمِ آرزو مٹاتے تو کچھ اور بات ہوتی 
دمِ نزع لے کے پہنچا ہے پیام ان کا، قاصد
وہ جو آپ چل کے آتے تو کچھ اور بات ہوتی 
کئی بار ہاتھ مجھ سے وہ ملا چکے ہیں ،لیکن 
جو نصیرؔ دل ملاتے تو کچھ اور بات ہوتی 

سید نصیرالدین نصیر

No comments:

Post a Comment