Wednesday 15 October 2014

نہ جانے ایسی بھی کیا بات تھی سخن میں میرے

نہ جانے ایسی بھی کیا بات تھی سخن میں میرے
ہزار تِیر ترازو رہے بدن میں میرے
یہ کیسا درد کا سیلاب جی سے گزرا ہے
یہ کس نے آگ لگا دی ہے پیرہن میں میرے 
تِرے وصال کے نشے، تِرے فراق کے دکھ
تمام ذائقے محفوظ ہیں بدن میں میرے
دلِ فریب زدہ پھر نئے فریب میں ہے
کہ تذکرے ہیں بہت تیری انجمن میں میرے
نہیں کہ زیست ہی اپنی قبائے مفلس تھی
فرازؔ سینکڑوں پیوند ہیں کفن میں میرے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment