Wednesday 15 October 2014

کیسے کیسے خواب دیکھے دربدر کیسے ہوئے​

کیسے کیسے خواب دیکھے، دربدر کیسے ہوئے​
کیا بتائیں روز و شب اپنے بسر کیسے ہوئے​
نیند کب آنکھوں میں آئی، کب ہوا ایسی چلی​
سائباں کیسے اڑے، ویراں نگر کیسے ہوئے​
کیا کہیں وہ زُلفِ سرکش کس طرح ہم پر کھلی​
ہم طرف دار ہوائے راہگزر کیسے ہوئے​
حادثے ہوتے ہی رہتے ہیں مگر یہ حادثے​
اک ذرا سی زندگی میں، اس قدر کیسے ہوئے​
ایک تھی منزل ہماری، ایک تھی راہِ سفر​
چلتے چلتے تم اُدھر، اور ہم اِدھر کیسے ہوئے​
رسا چغتائی​

No comments:

Post a Comment