Tuesday 26 May 2020

عکس کی حرکت

عکس کی حرکت

کچھ رنگ کا نور، کچھ آوازیں، کچھ سائے، دھندلکے کا پردہ 
اور مجھ کو جھجک ہے کیسے کہوں، سننے والے جھلائیں گے
اک مورت ہے، میٹھی من موہنی صورت ہے 
انمول بدن، اک چندر کرن لہراتی ہے 
بہتی ندی بل کھاتی ہے
اک پل کو دکھائی دیتی ہے 
پھر آنکھ جھپکتے میں اوجھل ہو جاتی ہے
حیران ہوں، کیسا جادو ہے 
یا میری آنکھ میں آنسو ہے
آنسو ہے دھندلکے کا پردہ
کچھ سائے ہیں، کچھ آوازیں، کچھ رنگ کا نور بھی لرزاں ہے
اور مجھ کو جھجک ہے، کیسے کہوں، سننے والے جھلائیں گے
کیا دھیان آیا، کیا دھیان آیا
کیوں آنکھ جھکی، دل شرمایا
تیری پوجا کے مندر کی مورت ٹوٹی، جگ بیت چکے
اب ہارنے والے ہار چکے اور جیتنے والے جیت چکے
کیا سوکھی، پھیکی کہانی میں اس رنگ سے موہنی آ جاتی
وہ رنگ کا نور، وہ آوازیں، وہ سائے، وہ پردہ دھندلا
دھندلا پردہ پیراہن ہے
ساری کا رسیلا دامن ہے
رہ رہ کے لرزتا جاتا ہے
رک رک کے مچلتا جاتا ہے
اک سایہ ان آوازوں کی
اجلی، نورانی کہانی کو
کہہ کہہ کے لرزتا جاتا ہے
اور آگے نکلتا جاتا ہے
اور مجھ کو جھجک ہے کیسے کہوں
خاموش رہوں، دکھ درد سہوں یہ بات نہیں میرے بس کی
کیوں جاگتی ہیں لہریں رس کی
ان زہری پھولوں کو کون چنے
دکھ درد کی بات نہ کوئی سنے
ہاں مجھ کو جھجک ہے، کیسے کہوں، سننے والے جھلائیں گے
خاموش رہوں، چپ چاپ سہوں، سہتا جاؤں
اک ندی میں بہتا جاؤں
بہتی ندی بل کھاتی ہے
لہراتی ہے، اک چندر کرن، انمول بدن
میٹھی من موہنی صورت ہے
چنچل، متوالی مورت ہے
کچھ رنگ کا نور، کچھ آوازیں، کچھ سائے لرزتے جاتے ہیں
اور لمحے گزرتے جاتے ہیں، اور لمحے گزرتے جاتے ہیں

میرا جی

No comments:

Post a Comment