Tuesday, 26 May 2020

اب تو مذہب کوئی ایسا بھی چلایا جائے

اب تو مذہب کوئی ایسا بھی چلایا جائے 
جس میں انسان کو انسان بنایا جائے 
جس کی خوشبو سے مہک جائے پڑوسی کا بھی گھر 
پھول اس قسم کا ہر سمت کھلایا جائے
آگ بہتی ہے یہاں گنگا میں، جہلم میں بھی
کوئی بتلائے کہاں جا کے نہایا جائے
پیار کا خون ہوا کیوں، یہ سمجھنے کے لیے
ہر اندھیرے کو اجالے میں بلایا جائے
میرے دکھ درد کا تجھ پر ہو اثر کچھ ایسا
میں رہوں بھوکا تو تجھ سے بھی نہ کھایا جائے
جسم دو ہو کے بھی، دل ایک ہوں اپنے ایسے
میرا آنسو تری پلکوں سے اٹھایا جائے

گوپال داس نیرج

No comments:

Post a Comment