اب تو مذہب کوئی ایسا بھی چلایا جائے
جس میں انسان کو انسان بنایا جائے
جس کی خوشبو سے مہک جائے پڑوسی کا بھی گھر
پھول اس قسم کا ہر سمت کھلایا جائے
آگ بہتی ہے یہاں گنگا میں، جہلم میں بھی
پیار کا خون ہوا کیوں، یہ سمجھنے کے لیے
ہر اندھیرے کو اجالے میں بلایا جائے
میرے دکھ درد کا تجھ پر ہو اثر کچھ ایسا
میں رہوں بھوکا تو تجھ سے بھی نہ کھایا جائے
جسم دو ہو کے بھی، دل ایک ہوں اپنے ایسے
میرا آنسو تری پلکوں سے اٹھایا جائے
گوپال داس نیرج
No comments:
Post a Comment