مدتوں بعد ہم کسی سے ملے
یوں لگا جیسے زندگی سے ملے
اس طرح کوئی کیوں کسی سے ملے
اجنبی جیسے اجنبی سے ملے
ساتھ رہنا مگر جدا رہنا
ذکر کانٹوں کی دشمنی کا نہیں
زخم پھولوں کی دوستی سے ملے
ان کا ملنا بھی تھا نہ ملنا سا
وہ ملے بھی تو بے رخی سے ملے
دل نے مجبور کر دیا ہو گا
جس سے ملنا نہ تھا اسی سے ملے
ان اندھیروں کا کیا گلہ مخؔمور
وہ اندھیرے جو روشنی سے ملے
مخمور سعیدی
No comments:
Post a Comment