محفل سے اٹھانے کے سزاوار ہمیں تھے
سب پھول تِرے باغ تھے اک خار ہمیں تھے
ہم کس کو دکھاتے شبِ فرقت کی اداسی
سب خواب میں تھے رات کو بیدار ہمیں تھے
سودا تِری زلفوں کا گیا ساتھ ہمارے
کل رات کو دیکھا تھا جسے خواب میں تم نے
رخسار پہ رکھے ہوئے رخسار، ہمیں تھے
دل سوختہ تھے چاہنے والوں میں تمہارے
لیکن سببِ گرمئ اظہار ہمیں تھے
کل کوچۂ قاتل میں جو تھا خلق کا مجمع
کھائے ہوئے اس ہاتھ کی تلوار ہمیں تھے
اے عشق مژہ! کون ہمیں دیکھنے آتا
آنکھوں میں کھٹکتے تھے وہ بیمار ہمیں تھے
تربت میں بھی آنکھیں نہ ہوئیں بند ہماری
ایسے تِرے اک طالبِ دیدار ہمیں تھے
ٹھنڈے کیے غیروں کے دل اور ہم کو جلایا
اک تھے تو محبت کے گنہ گار ہمیں تھے
ملتے ہی لبِ یار سے لب، دل نکل آیا
مارا جسے عیسیٰ نے، وہ بیمار ہمیں تھے
تم غیروں سے ڈر ڈر کے لپٹ جاتے تھے پیہم
کل رات کو نالاں پسِ دیوار ہمیں تھے
سب راز تعشؔق سے بیاں ہوتے تھے دل کے
پہلے تِرے اک محرمِ اسرار ہمیں تھے
تعشق لکھنوی
No comments:
Post a Comment