کمرے میں تیس روز سے دیوانہ بند ہے
تم رو رہے ہو شہر کو، ویرانہ بند ہے
مکّے میں ہے طوافِ حرم بھی رکا ہوا
اور مے کدے میں گردشِ پیمانہ بند ہے
اک شمع جل رہی ہے اکیلی مزار پر
مشرک بھی دل شکستہ مسلماں بھی دلفگار
مسجد کی تعزیت میں صنم خانہ بند ہے
ممنوع ہے مکالمہ ساحل کی ریت سے
اپنے بدن کو دھوپ میں نہلانا بند ہے
رندوں کو روندنے کا مزہ بھی نہیں رہا
واعظ کو رنج یہ ہے کہ مےخانہ بند ہے
ماتم یہ ہے کہ جرم ہے ماتم کی بھیڑ بھی
روتے ہیں سب اکیلے عزا خانہ بند ہے
ہے حجرۂ فقیر میں بھی صرف سائیں سائیں
رنگینئ محافلِ شاہانہ بند ہے
پہلے بھی قیدِ مرگ میں تھی زندگی یہاں
پر اب کے تو بطرزِ جداگانہ بند ہے
وہ بام پر اکیلا ہے، سنسان ہے گلی
چاروں طرف سے کوچۂ جانانہ بند ہے
تنہائی میں بتوں کو خدا یاد آ گیا
اور کس طرح نہ آۓ کہ بتخانہ بند ہے
ارمان پھر رہی ہے کھلی موت شہر میں
اور زندگی کا نعرۂ مستانہ بند ہے
علی ارمان
No comments:
Post a Comment