بخت جب کرب کے سائے میں ڈھلا ہو بابا
ہم فقیروں کی دعا ہے کہ بھلا ہو بابا
کیا پتہ اس کو ہو پچھتاوا بچھڑ جانے پہ
ہاتھ افسوس سے اس نے بھی ملا ہو بابا
اس کا کیا جس کو تپش تھوڑی لگے سورج کی
اس لیے مڑ کے کئی بار تلاشا یونہی
کیا خبر پیچھے مِرے کوئی چلا ہو بابا
ہو بھی سکتا ہے یہ آنسو ہوں دکھاوا جھوٹا
اک کلاکار کی یہ جھوٹی کلا ہو بابا
عشق سے کہنا کہ اس کو تو رعایت دے دے
مجھ سا نازوں میں اگر کوئی پلا ہو بابا
کومل جوئیہ
No comments:
Post a Comment