Tuesday, 26 May 2020

سانحہ یہ میری زندگی سہہ گئی

سانحہ یہ میری زندگی سہہ گئی
میں یہاں آ گیا وہ وہاں رہ گئی
کچھ نہ میں کر سکا، دیکھتا رہ گیا 
کچھ نہ وہ کر سکی، دیکھتی رہ گئی
لوگ کہتے ہیں تقسیم سب ہو گیا 
جو نہیں بٹ سکی چیز وہ رہ گئی
ان زمینوں نے کتنا لہو پی لیا
یہ خبر آسمانوں تلک ہے گئی
راستے میں کھڑی ہو گئیں سرحدیں
سرحدوں پر کھڑی بے بسی رہ گئی
یاد پنڈی کی آتی ہے اب کس کے لیے
میری مٹی تھی جہلم میں وہ بہہ گئی
دے گئی گھر، گلی، شہر میرا کسے
کیا پتہ کس سے بخشی وہ کیا کہہ گئی

آنند بخشی


راولپنڈی آنند بخشی کی جنم بھومی/جائے پیدائش ہے، اس غزل میں پنڈی کے ذکر کےساتھ ساتھ اور بھی بہت سے معاملات سے بچھڑنے کا ملال اور ایک عجیب سے درد کا عنصر پایا جاتا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنند بخشی جی اپنی جنم بھومی اور اس سے متعلق یادوں کو بہت مس کرتے تھے، مذکورہ بالالنک میں انہیں کی زبانی ان کی یہ غزل سنیۓ اور ان کی روح کےسکون کے لیے دعا بھی کر دیجیۓ گا۔

No comments:

Post a Comment