Friday, 8 May 2020

کہ جس میں بھائی لڑتے ہوں وہ گھر اچھا نہیں لگتا

جہاں خود غرضیاں ہوں وہ نگر اچھا نہیں لگتا
کہ جس میں بھائی لڑتے ہوں وہ گھر اچھا نہیں لگتا
وہ دستارِ انا پہنے قبیلے کا ستارہ ہے
امیرِ شہر کو لیکن وہ سر اچھا نہیں لگتا
جو والد کا بڑھاپے میں سہارا بن نہیں سکتا
جو سچ پوچھو تو وہ لختِ جگر اچھا نہیں لگتا
مجھے تو پیار ہے ان سے جو کام آتے ہیں اوروں کے
فقط دولت کمانے کا ہنر اچھا نہیں لگتا
چمن کو روندنے والے کو رہبر کس طرح مانوں
وہ خود اچھا بنے مجھ کو مگر اچھا نہیں لگتا
مجھے تو پیار والی اپنی کٹیا اچھی لگتی ہے
جو ایواں نفرتیں دے اس کا در اچھا نہیں لگتا
جو بچے بھول کر رنگینیوں میں غرق ہو جائے
خدا شاہد ہے مجھ کو وہ پدر اچھا نہیں لگتا
ہدف ہو سامنے انوارؔ تو چلتے ہی رہتے ہیں
سرابوں کا ہم کو سفر اچھا نہیں لگتا

انوار فیروز

No comments:

Post a Comment