Friday, 8 May 2020

دل جلا کر بھی اجالا نہیں ہونے والا

دل جلا کر بھی اجالا نہیں ہونے والا
یہ جو آنسو ہے ستارا نہیں ہونے والا
زخم ہے یہ کہ دھکتا ہوا انگارہ ہے
درد وہ ہے کہ مداوا نہیں ہونے والا
جانے کیوں عشق میں ہم خود کو بنا بیٹھے ہیں
اک تماشا جو دوبارہ نہیں ہونے والا
چھوڑ دیں کارِ محبت، یہی بہتر ہو گا
اتنی اجرت میں گزارہ نہیں ہونے والا
عقل کہتی ہے کہ اب اس سے بچھڑنا ہے مجھے
دِل یہ کہتا ہے کہ ایسا نہیں ہونے والا
خون سستا ہے یہاں اور ہے مہنگا انصاف
ایسی بستی میں گزارہ نہیں ہونے والا
اب وہی ہو گا جو جمہور کی خواہش ہو گی
پار سرحد سے اشارہ نہیں ہونے والا
تجھ سا بے درد بھی ہو گا نہ زمانے میں کوئی
مجھ سا بھی درد کا مارا نہیں ہونے والا

انوار فیروز

No comments:

Post a Comment