دل جلا کر بھی اجالا نہیں ہونے والا
یہ جو آنسو ہے ستارا نہیں ہونے والا
زخم ہے یہ کہ دھکتا ہوا انگارہ ہے
درد وہ ہے کہ مداوا نہیں ہونے والا
جانے کیوں عشق میں ہم خود کو بنا بیٹھے ہیں
چھوڑ دیں کارِ محبت، یہی بہتر ہو گا
اتنی اجرت میں گزارہ نہیں ہونے والا
عقل کہتی ہے کہ اب اس سے بچھڑنا ہے مجھے
دِل یہ کہتا ہے کہ ایسا نہیں ہونے والا
خون سستا ہے یہاں اور ہے مہنگا انصاف
ایسی بستی میں گزارہ نہیں ہونے والا
اب وہی ہو گا جو جمہور کی خواہش ہو گی
پار سرحد سے اشارہ نہیں ہونے والا
تجھ سا بے درد بھی ہو گا نہ زمانے میں کوئی
مجھ سا بھی درد کا مارا نہیں ہونے والا
انوار فیروز
No comments:
Post a Comment