Thursday 21 May 2020

روٹھنے والے سے کوئی کہہ دے یوں نہ روٹھے کہ دل ٹوٹ جائے

زندگی تو خفا ہم سے ہے ہی موت بھی نہ کہیں روٹھ جائے
روٹھنے والے سے کوئی کہہ دے یوں نہ روٹھے کہ دل ٹوٹ جائے
آہ کیونکر نہ پہنچے فغاں تک گھر جلے اور نہ نکلے، دھواں تک
اس کو دو گے تسلی کہاں تک جس کی تقدیر ہی پھوٹ جائے
گدگدی سے صبا کی مچل کر ناز کرتی ہے اپنے بدن پر
ان کی انگڑائیاں دیکھ لے گر شاخ گُل کی کمر ٹوٹ جائے
غمزدوں کا ٹھکانہ نہ چھوٹے، زندگی کا بہانہ نہ چھوٹے
یار کا آستانہ نہ چھوٹے چاہے سارا جہاں چھوٹ جائے
قیمتی ہے ہر اک بول لیکن کُفر ہے پیار میں مول لیکن
دل کی دولت ہے انمول لیکن مسکرا کے کوئی لوٹ جائے
میکشوں کی نہ چھوٹے کبھی ضد، لاکھ کوشش کریں شیخ و زاہد
ان کی آنکھوں میں دیکھو تو شاہد جام بھی ہاتھ سے چھوٹ جائے

شاہد کبیر

No comments:

Post a Comment