زندگی تو خفا ہم سے ہے ہی موت بھی نہ کہیں روٹھ جائے
روٹھنے والے سے کوئی کہہ دے یوں نہ روٹھے کہ دل ٹوٹ جائے
آہ کیونکر نہ پہنچے فغاں تک گھر جلے اور نہ نکلے، دھواں تک
اس کو دو گے تسلی کہاں تک جس کی تقدیر ہی پھوٹ جائے
گدگدی سے صبا کی مچل کر ناز کرتی ہے اپنے بدن پر
غمزدوں کا ٹھکانہ نہ چھوٹے، زندگی کا بہانہ نہ چھوٹے
یار کا آستانہ نہ چھوٹے چاہے سارا جہاں چھوٹ جائے
قیمتی ہے ہر اک بول لیکن کُفر ہے پیار میں مول لیکن
دل کی دولت ہے انمول لیکن مسکرا کے کوئی لوٹ جائے
میکشوں کی نہ چھوٹے کبھی ضد، لاکھ کوشش کریں شیخ و زاہد
ان کی آنکھوں میں دیکھو تو شاہد جام بھی ہاتھ سے چھوٹ جائے
شاہد کبیر
No comments:
Post a Comment