یہ جو ہر لمحہ نہ راحت نہ سکوں ہے یوں ہے
اس کو پانے کا عجب دل میں جنوں ہے یوں ہے
عادتاً کرتا ہے وہ وعدہ خلافی پہلے
پھر بناتا ہے بہانے بھی کہ یوں ہے یوں ہے
مجھ کو معلوم ہے لوٹ آئے گا میری جانب
دل کا کھنچنا جو یہ جاری ہے فقط اس کی طرف
اس کی آنکھوں میں الگ سا ہی فسوں ہے یوں ہے
پوچھتے ہو کہ بھلا کیوں نہیں مایوسی ہے
اس کے ہونٹوں پہ جو آہستہ سی ہوں ہے یوں ہے
بے سبب ہے یہ کہاں دشت نوردی بھی ضیا
اپنے ذمہ بھی کوئی کارِ جنوں ہے یوں ہے
ضیا ضمیر
No comments:
Post a Comment