Tuesday 26 May 2020

یہ جو ہر لمحہ نہ راحت نہ سکوں ہے یوں ہے

یہ جو ہر لمحہ نہ راحت نہ سکوں ہے یوں ہے
اس کو پانے کا عجب دل میں جنوں ہے یوں ہے
عادتاً کرتا ہے وہ وعدہ خلافی پہلے
پھر بناتا ہے بہانے بھی کہ یوں ہے یوں ہے
مجھ کو معلوم ہے لوٹ آئے گا میری جانب
اس کے جانے پہ بھی اس دل میں سکوں ہے یوں ہے
دل کا کھنچنا جو یہ جاری ہے فقط اس کی طرف
اس کی آنکھوں میں الگ سا ہی فسوں ہے یوں ہے
پوچھتے ہو کہ بھلا کیوں نہیں مایوسی ہے
اس کے ہونٹوں پہ جو آہستہ سی ہوں ہے یوں ہے
بے سبب ہے یہ کہاں دشت نوردی بھی ضیا
اپنے ذمہ بھی کوئی کارِ جنوں ہے یوں ہے

ضیا ضمیر

No comments:

Post a Comment