Wednesday 27 May 2020

زمیں پہ چل نہ سکا آسمان سے بھی گیا

زمیں پہ چل نہ سکا آسمان سے بھی گیا
کٹا کے پر کو پرندہ اڑان سے بھی گیا
تباہ کر گئی پکے مکان کی خواہش
میں اپنے گاؤں کے کچے مکان سے بھی گیا
پرائی آگ میں جل کر بھی کیا ملا تجھ کو
اُسے بچا نہ سکا اپنی جان سے بھی گیا
بھُلا دیا تو بھُلانے کی انتہا کر دی
وہ شخص اب مِرے وہم و گمان سے بھی گیا
کسی کے ہاتھ کا نکلا ہوا وہ تیر ہوں میں
حدف کو چھو نہ سکا اور کمان سے بھی گیا

شاہد کبیر

No comments:

Post a Comment