Saturday 30 May 2020

ہم کو بھی چھپا اے شب غم اپنے پروں میں

ہم کو بھی چھپا اے شبِ غم اپنے پروں میں
ہم لوگ بھی شامل ہیں تیرے ہم سفروں میں
اے دیدہ وری! میں تِرے معیار کا مجرم
پھر لے کے چلا اپنے گہر کم نظروں میں
بادل تو برستے ہیں، مگر بانجھ زمین پر
سورج تو ابھرتا ہے مگر بے بصروں میں
ممکن ہو تو ہر اِک در و دیوار پہ لکھ دو
پتھر نہ چھپایا کرو شیشے کے گھروں میں
مرہم کی جگہ بانٹتے پھرتے ہیں نئے زخم
یہ رسم بھی نکلی ہے عجب چارہ گروں میں
اس گھر کے محافظ بھی خبردار ہیں کتنے
سوراخ تو چھت میں ہوئے تالے ہیں دروں میں
اے دوست! تِرا درد کہاں راحتِ جاں تھا
تُو ہم کو غنیمت سمجھ آشفتہ سروں میں
اس شہر میں رہتا ہوں اس انداز سے محسن
جیسے کوئی فنکار پھرے بے ہنروں میں

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment