جب بھی اس شہر میں کمرے سے میں باہر نکلا
میرے سواگت کو ہر ایک جیب سے خنجر نکلا
تتلیوں پھولوں کا لگتا تھا جہاں پر میلہ
پیار کا گاؤں وہ بارود کا دفتر نکلا
ڈوب کر جس میں ابھر پایا نہ میں جیون بھر
میرے ہونٹوں پہ دعا اس کی زباں پہ گالی
جس کے اندر جو چھپا تھا وہی باہر نکلا
روکھی روٹی بھی سدا بانٹ کے جس نے کھائی
وو بھکاری تو شہنشاہوں سے بڑھ کر نکلا
کیا عجب ہے انسان کا دل بھی نیرج
موم نکلا یہ کبھی تو، کبھی پتھر نکلا
گوپال داس نیرج
No comments:
Post a Comment