اب جام نگاہوں کے نشہ کیوں نہیں دیتے
اب بول محبت کے مزا کیوں نہیں دیتے
تم کھول کے زلفوں کو اڑا کیوں نہیں دیتے
تم شان گھٹاؤں کی گھٹا کیوں نہیں دیتے
اک گھونٹ کی امید سمندر سے نہیں جب
ہے منتظرِ حشر بہت دیر سے دنیا
گھنگھرو تِرے پیروں کے صدا کیوں نہیں دیتے
یہ دھوپ رہے گی تو یہ رسوائی کرے گی
سورج کو گنہ گار بجھا کیوں نہیں دیتے
تم دوسرے لوگوں پہ نہ رکھا کرو الزام
ہر بات میں تم میری خطا کیوں نہیں دیتے
قاتل کا ہے کیا نام یہ سب پوچھ رہے ہیں
کیا ہم بھی ہیں ہمنام بتا کیوں نہیں دیتے
تم کو مِرے اندازِ وفا سے ہے شکایت
تم مجھ کو وفا کر کے دکھا کیوں نہیں دیتے
جو لوگ علیم اپنی جگہ میر بنے ہیں
اشعار کو وہ طرزِ ادا کیوں نہیں دیتے
علیم عثمانی
No comments:
Post a Comment