Wednesday 27 May 2020

اب جام نگاہوں کے نشہ کیوں نہیں دیتے

اب جام نگاہوں کے نشہ کیوں نہیں دیتے
اب بول محبت کے مزا کیوں نہیں دیتے
تم کھول کے زلفوں کو اڑا کیوں نہیں دیتے
تم شان گھٹاؤں کی گھٹا کیوں نہیں دیتے
اک گھونٹ کی امید سمندر سے نہیں جب
پھر آگ سمندر میں لگا کیوں نہیں دیتے
ہے منتظرِ حشر بہت دیر سے دنیا
گھنگھرو تِرے پیروں کے صدا کیوں نہیں دیتے
یہ دھوپ رہے گی تو یہ رسوائی کرے گی
سورج کو گنہ گار بجھا کیوں نہیں دیتے
تم دوسرے لوگوں پہ نہ رکھا کرو الزام
ہر بات میں تم میری خطا کیوں نہیں دیتے
قاتل کا ہے کیا نام یہ سب پوچھ رہے ہیں
کیا ہم بھی ہیں ہمنام بتا کیوں نہیں دیتے
تم کو مِرے اندازِ وفا سے ہے شکایت
تم مجھ کو وفا کر کے دکھا کیوں نہیں دیتے
جو لوگ علیم اپنی جگہ میر بنے ہیں
اشعار کو وہ طرزِ ادا کیوں نہیں دیتے

علیم عثمانی

No comments:

Post a Comment