کب اپنی خوشی سے وہ آئے ہوئے ہیں
مِرے جذبِ دل کے بلائے ہوئے ہیں
کجی پر جو افلاک آئے ہوئے ہیں
ان آنکھوں کے شاید سِکھائے ہوئے ہیں
کبھی تو شہیدوں کی قبروں پہ آؤ
کیا ہے جو کچھ ذکر مجھ دل جلے کا
پسینے میں بالکل نہائے ہوئے ہیں
ذرا پھول سے پاؤں میلے نہ ہوں گے
تم آؤ ہم آنکھیں بچھائے ہوئے ہیں
کہیں خاک بھی اب نہ بیٹھے گی اپنی
کہ ان کے گلی سے اٹھائے ہوئے ہیں
گرے گا زمیں پر نہ خونِ شہیداں
عبث آپ دامن اٹھائے ہوئے ہیں
فقط پاس ہے ان کے تیرِ نگہ کا
جو سینے سے دل کو لگائے ہوئے ہیں
جنازہ مِرا دوستو! کل اٹھانا
کہ وہ آج مہندی لگائے ہوئے ہیں
انہیں پاس ہے دل ہمارا مقرر
وہی ہم سے آنکھیں چرائے ہوئے ہیں
جو ہے گھر کے اندر وہی گھر کے باہر
وہ آنکھوں میں دل میں سمائے ہوئے ہیں
مِرے بعد جانے کے اتریں گے کیونکر
یہ کپڑے جو میرے پہنائے ہوئے ہیں
نہ ہو سبزہ رنگوں میں کیوں ان کی شہرت
مِرے قتل پر زہر کھائے ہوئے ہیں
مِرے خط کے پرزے اڑائے انہوں نے
کسی کے سِکھائے پڑھائے ہوئے ہیں
خدا زلف سے دل جگر کو بچائے
بڑے پیچ میں دونوں آئے ہوئے ہیں
تڑپ کر شبِ ہجر میں کیوں نہ روؤں
چمکتی ہے برق، ابر آئے ہوئے ہیں
تعشؔق وہ جو چاہیں باتیں سنائیں
سرِ عجز ہم تو جھکائے ہوئے ہیں
تعشق لکھنوی
No comments:
Post a Comment