سائیاں
سائیاں میں آج چھوٹی سی اک التجا کروں
سائیاں ہمارے دل سے کدورت نکال دے
سائیاں ہمیں ہجوم کی مستی سے اب نکال
سائیاں ہمیں حسین کی چوکھٹ پہ ڈال دے
ماؤں سے بڑھ کے پیار کسے ہے تِرے سوا؟
سائیاں ہمارے سر سے وباؤں کو ٹال دے
٭
سائیاں ہمارا شہر تو مطلب پرست ہے
مطلب نکل گیا تو تجھے بھول جائیں گے
سائیاں ہمیں زمانے سے شکوے ہیں بے شمار
سائیاں تمام شکوے بھی تجھ کو سنائیں گے
سائیاں ہم ایسے لوگ اداسی کے یار ہیں
سائیاں ہم ایسے لوگ تِرے کام آئیں گے
٭
سائیاں ہمارے دل تو عداوت سے بھر گئے
سائیاں ہمارے ذہن غلاظت سے دور رکھ
سائیاں ہمارا دِین بھی فرقوں میں بٹ گیا
سائیاں ہمیں کفر کی نجاست سے دور رکھ
سائیاں ہمارے دیس کو پھولوں سے ڈھانپ دے
سائیاں ہمیں عدو کی کفالت سے دور رکھ
٭
سائیاں ہم ایسے لوگ فقط ہجر سہتے ہیں
سائیاں ہم ایسے لوگوں کا کچھ تو خیال کر
سائیاں ہجومِ شہر سے آواز دے کے پوچھ؟
خوش ہیں ہماری ذات پہ کیچڑ اچھال کر
سائیاں ہماری ہار پہ خوشیاں منائی گئیں
سائیاں ہمارے واسطے کچھ تو کمال کر
٭
سائیاں وہ میرا یار ستارا شناس تھا
افسوس اس کا مجھ سے ستارا نہیں ملا
سائیاں ندی کے بہنے کا انداز دیکھ اب
شاید کہ پانیوں کو کنارا نہیں ملا
سائیاں ہمیں کسی سے شکایت نہیں کوئی
سائیاں ہمیں تو خود کا سہارا نہیں ملا
٭
سائیاں سبھی امیروں کو فاقوں سے مار دے
تاکہ انہیں غریب کی غربت کا خیال ہو
سائیاں غریب شخص کی دنیا بنا دے خلد
تا کہ امیر شخص کا جینا محال ہو
حق کھا کے جو بنائی گئی ہے غریب کا
گر جاۓ بارشوں سے، وہ کوٹھی، کمال ہو
٭
سائیاں ہمارا فوج سے بس یہ سوال ہے
اک انچ زمین بھی ہمیں آزاد کر کے دی؟
سائیاں ہمیں نے عشق کو سونپی تھی زندگی
سائیاں مگر، وہ عشق نے برباد کر کے دی
سائیاں چلے تھے دشت میں مرنے کے واسطے
اک اجنبی نے زندگی فریاد کر کے دی
٭
سائیاں ترے یہاں تو برابر ہیں سب کے سب
سائیاں غریب شخص کے بچوں کا کیا ہوا؟
سائیاں یتیم بھرتے ہیں طعنوں سے اپنا پیٹ
سائیاں تِرے عدل سے بڑا دل خفا ہوا
سائیاں ہمارے شہر میں فرعون ہیں سبھی
دکھ ہے کہ چپ ہے آج کا موسیٰ کھڑا ہوا
٭
سائیاں ہمارے پاس لٹانے کو کچھ نہیں
سائیاں محبتوں میں سبھی کچھ لٹا دیا
کب کون کس کا رہتا ہے مشکل کے وقت میں
سائیاں ہمیں تو وقت نے سب کچھ بتا دیا
سائیاں بری لگی ہے تجھے التجا مِری؟
شاید کہ آج حمزہ نے خود کو گنوا دیا
٭
حمزہ نقوی
No comments:
Post a Comment