Wednesday, 27 May 2020

آج ہم بچھڑے تو پھر کتنے رنگیلے ہو گئے

آج ہم بچھڑے تو پھر کتنے رنگیلے ہو گئے
میری آنکھیں سرخ تیرے ہاتھ پیلے ہو گئے
اب تِری یادوں کے نشتر بھی ہوئے جاتے ہیں کند
ہم کو کتنے روز اپنے زخم چھیلے ہو گئے
کب کی پتھر ہو چکی تھیں منتظر آنکھیں، مگر
چھو کے دیکھا جو انہیں تو ہاتھ گیلے ہو گئے
جانے کیا احساس سازِ حسن کی تاروں میں ہے
جن کو چھوتے ہی مِرے نغمے رسیلے ہو گئے
اب کوئی امید ہے شاہد، نہ کوئی آرزو
آسرے ٹوٹے تو جینے کے وسیلے ہو گئے

شاہد کبیر

No comments:

Post a Comment