Tuesday, 26 May 2020

جس طرح پیاسا کوئی آب رواں تک پہنچے

جس طرح پیاسا کوئی آبِ رواں تک پہنچے
ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہم اس کے مکاں تک پہنچے
"شرط اتنی تھی "محبت میں بدن تک پہنچو
ہم جنوں پیشہ مگر یار کی جاں تک پہنچے
تیری چوکھٹ پہ پلٹ آئے تِرے دیوانے
بے اماں یعنی اسی جائے اماں تک پہنچے
چل پڑے ہیں نئی تہذیب کے رستے ہم لوگ
پانی کب دیکھیے خطرے کے نشاں تک پہنچے
شب کی جاگی ہوئی آنکھوں کی تپش پوچھتے ہو
خاک ہو جائے اگر خواب یہاں تک پہنچے
خیر ہم تو وہیں ٹھہرے ہیں کہ بچھڑے تھے جہاں
قافلے والو! بتاؤ، کہ کہاں تک پہنچے؟
کاسۂ جسم اٹھا لائے تِرے شہر کے لوگ
"اور یہ کہنے لگے "خیمۂ جاں تک پہنچے
عشق میں غیر یقینی نہیں ہوتا کچھ بھی
بات کچھ بھی نہیں بس آپ گماں تک پہنچے

ضیا ضمیر

No comments:

Post a Comment