نیند سے آنکھ کھلی ہے، ابھی دیکھا کیا ہے
دیکھ لینا ابھی کچھ دیر میں دنیا کیا ہے
باندھ رکھا ہے کسی سوچ نے گھر سے ہم کو
ورنہ اپنا در و دیوار سے رشتہ کیا ہے
ریت کی، اینٹ کی، پتھر کی ہوں یا مٹی کی
گھیر کر مجھ کو بھی لٹکا دیا مصلوب کے ساتھ
میں نے لوگوں سے یہ پوچھا تھا کہ قصہ کیا ہے
اپنی دانست میں سمجھے کوئی دنیا شاہد
ورنہ ہاتھوں میں لکیروں کے علاوہ کیا ہے
شاہد کبیر
No comments:
Post a Comment