Wednesday 27 May 2020

نیند سے آنکھ کھلی ہے ابھی دیکھا کیا ہے

نیند سے آنکھ کھلی ہے، ابھی دیکھا کیا ہے
دیکھ لینا ابھی کچھ دیر میں دنیا کیا ہے
باندھ رکھا ہے کسی سوچ نے گھر سے ہم کو
ورنہ اپنا در و دیوار سے رشتہ کیا ہے
ریت کی، اینٹ کی، پتھر کی ہوں یا مٹی کی
کسی دیوار کے سائے کا بھروسہ کیا ہے
گھیر کر مجھ کو بھی لٹکا دیا مصلوب کے  ساتھ
میں نے لوگوں سے یہ پوچھا تھا کہ قصہ کیا ہے 
اپنی دانست میں سمجھے کوئی دنیا شاہد
ورنہ ہاتھوں میں لکیروں کے علاوہ کیا ہے

شاہد کبیر

No comments:

Post a Comment