موت آئی ہے زمانے کی تو مر جانے دو
کم سے کم اس کی جوانی تو گزر جانے دو
جاگ اٹھیں گے ہم ابھی ایسی ضرورت کیا ہے
دھوپ دیوار سے کچھ اور اتر جانے دو
مدتیں ہو گئیں اک بات مِرے ذہن میں ہے
گردشِ وقت کا کتنا ہے کشادہ آنگن
اب تو مجھ کو اسی آنگن میں بکھر جانے دو
خوش نصیبی سے ادھر آتشِ غم خوب ہے تیز
دوستو! اب مِری ہستی کو نکھر جانے دو
کوئی منزل نہیں رہ جائے گی سر ہونے کو
آدمی کو ذرا اللہ سے ڈر جانے دو
توڑ دو بڑھ کے یہ مفروضہ وفاؤں کے حصار
دل کی آواز جدھر جائے، ادھر جانے دو
وقت کے ہاتھ کا پھینکا ہوا پتھر ہوں میں
اب تو مجھ کو کسی شیشے میں اتر جانے دو
الجھنیں ختم نہ کیوں ہوں گی زمانے کی علیم
ان کے الجھے ہوئے گیسو تو سنور جانے دو
علیم عثمانی
No comments:
Post a Comment