Tuesday, 26 May 2020

موت آئی ہے زمانے کی تو مر جانے دو

موت آئی ہے زمانے کی تو مر جانے دو
کم سے کم اس کی جوانی تو گزر جانے دو
جاگ اٹھیں گے ہم ابھی ایسی ضرورت کیا ہے
دھوپ دیوار سے کچھ اور اتر جانے دو
مدتیں ہو گئیں اک بات مِرے ذہن میں ہے
سوچتا ہوں تمہیں بتلاؤں مگر جانے دو
گردشِ وقت کا کتنا ہے کشادہ آنگن
اب تو مجھ کو اسی آنگن میں بکھر جانے دو
خوش نصیبی سے ادھر آتشِ غم خوب ہے تیز
دوستو! اب مِری ہستی کو نکھر جانے دو
کوئی منزل نہیں رہ جائے گی سر ہونے کو
آدمی کو ذرا اللہ سے ڈر جانے دو
توڑ دو بڑھ کے یہ مفروضہ وفاؤں کے حصار
دل کی آواز جدھر جائے، ادھر جانے دو
وقت کے ہاتھ کا پھینکا ہوا پتھر ہوں میں
اب تو مجھ کو کسی شیشے میں اتر جانے دو
الجھنیں ختم نہ کیوں ہوں گی زمانے کی علیم
ان کے الجھے ہوئے گیسو تو سنور جانے دو

علیم عثمانی

No comments:

Post a Comment