کسی امیر کو کوئی فقیر کیا دے گا
غزل کی صنف کو شاہد کبیر کیا دے گا
انا کو بیچ کے عظمت خرید سکتے ہیں
ضمیر کیا ہے، کسی کو ضمیر کیا دے گا
بس اک گماں کے تعاقب میں لوگ چلتے ہیں
قبول ہو کہ نہ ہو، یہ تِرا مقدر ہے
تجھے دعا کے علاوہ فقیر کیا دے گا
سیاہیاں تو مِٹا دے گا روشنی دے کر
برائیوں کو، سحر کا سفیر کیا دے گا
شاہد کبیر
No comments:
Post a Comment