Thursday, 21 May 2020

تجھے دعا کے علاوہ فقیر کیا دے گا

کسی امیر کو کوئی فقیر کیا دے گا
غزل کی صنف کو شاہد کبیر کیا دے گا
انا کو بیچ کے عظمت خرید سکتے ہیں
ضمیر کیا ہے، کسی کو ضمیر کیا دے گا
بس اک گماں کے تعاقب میں لوگ چلتے ہیں
سفر کو سمت کوئی راہگیر کیا دے گا
قبول ہو کہ نہ ہو، یہ تِرا مقدر ہے
تجھے دعا کے علاوہ فقیر کیا دے گا
سیاہیاں تو مِٹا دے گا روشنی دے کر
برائیوں کو، سحر کا سفیر کیا دے گا 

شاہد کبیر

No comments:

Post a Comment