عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یہ حقیقت یہ بلندی اور یہ شانِ حسینؑ
بن گیا اسلام کی بنیاد ایمانِ حسینؑ
کربلا کی جلوہ گہہ یا ہے میدانِ حسینؑ
معرفت کی انتہا ہے نورِ ایمانِ حسینؑ
عصر کو عاشور کی کیونکر نہ ہو جاتا وفا
وعدہ پیغمبریﷺ تھا عہد و پیمانِ حسینؑ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یہ حقیقت یہ بلندی اور یہ شانِ حسینؑ
بن گیا اسلام کی بنیاد ایمانِ حسینؑ
کربلا کی جلوہ گہہ یا ہے میدانِ حسینؑ
معرفت کی انتہا ہے نورِ ایمانِ حسینؑ
عصر کو عاشور کی کیونکر نہ ہو جاتا وفا
وعدہ پیغمبریﷺ تھا عہد و پیمانِ حسینؑ
ٹوٹنے دیجیے کچھ خواب چلے جائیں گے
آپ کی چاہ میں بے تاب، چلے جائیں گے
اس کو سمجھاؤ، کرے درد کی شدت میں کمی
اس طرح تو مِرے اعصاب چلے جائیں گے
مجھ کو لگتا تھا بچھڑتے ہوئے جاں جائے گی
کیا خبر تھی تِرے آداب چلے جائیں گے
اے ظالم تِرے جب سے پالے پڑے
ہمیں اپنے جینے کے لالے پڑے
پھرے ڈھونڈتے پا برہنہ تجھے
یہاں تک کہ پاؤں میں چھالے پڑے
کیا ہے یہ طغیاں مِرے اشک نے
کہ بہتے ہیں دنیا میں نالے پڑے
دل ہے بیمار کیا کرے کوئی
کس طرح سے دوا کرے کوئی
جب کہ تم بِن کہیں قرار نہ ہو
پھر بتاؤ کہ کیا کرے کوئی
وہ نہ اپنی روش کو بدلیں گے
چاہے جو کچھ کہا کرے کوئی
خیال و خواب میں دنیا صدا بسائی گئی
اسی لیے تو حقیقت سے آشنائی گئی
تمہاری وجہ سے ملتا تھا ہر کسی سے میں
رہے نہ تم تو سبھی سے وہ آشنائی گئی
طویل رات لگے اب نہ دن لگے چھوٹا
پرانے لوگ گئے داستاں سرائی گئی
سوچا میں ایک شب کہ ہوں یا نہیں ہوں میں
کیا آسماں پہ ہوں، یا بر زمیں ہوں میں
اس طوطئ خیال کے پر تھی نہ بال تھے
اڑنے لگا خیال کہ تنہا نہیں ہوں میں
جانا میں جب کہ دنیا ہی کافر کی جا ہے
جانے لگا سفر سے، خدا را نہیں ہوں میں
مالک بحر و بر
ہے تجھے تو خبر
تیرے پیش نظر
میرے شام و سحر
آنسووں سے ہیں تر
مالک بحر و بر
تیری نسبت سے پُر وقار ہوں میں
ورنہ تو ایک خاک زار ہوں میں
جو میری خاک سے ہیں بالیدہ
وہ بھی کہتے ہیں ریگزار ہوں میں
اک تو آنے لگے ہیں گِریے کے دن
اور پہلے سے اشکبار ہوں میں
بطور تبرک زیارت کو آیا کرو
اب سراسر ہتک ہو رہی ہے مِرے ان چراغوں کی
جو بھیگی راتوں میں روشن رہے
یہ مِرا خون کتنا جلا اور جلتا رہا
اور مِرے جسم پر کتنی آنکھوں نے تعویذ ٹانکے
مِری کج مزاجی پہ حسرت کی چادر چڑھی
ہاں میں زندہ مزار اب بنا ہوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وہ صحیفوں میں نعت کہتے ہیں
ہم قصیدوں میں نعت کہتے ہیں
ہم پہ کتنا کرم ہے آقاﷺ کا
طاق راتوں میں نعت کہتے ہیں
گر کبھی روشنی کی حاجت ہو
دل کی غاروں میں نعت کہتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خدا گواہ جو حق کے امام ہوتے ہیں
وہ مستحقِ درود و سلام ہوتے ہیں
بہ شوق ناز اُٹھاتا ہے صاحبِ معراج
خدا کے دین کے ایسے امام ہوتے ہیں
جو بن کے آتے ہیں زہرا کی آنکھ کے تارے
وہی زمانے میں ماہِ تمام ہوتے ہیں
کردار ہی سے زینت افلاک ہو گئے
کردار گر گیا خس و خاشاک ہو گئے
ہم جیسے سادہ لوح کو دنیا کے ہاتھ سے
ایسی سزا ملی ہے کہ چالاک ہو گئے
شاید بہار آ گئی موج جنوں لیے
دامن جو سل گئے تھے وہ پھر چاک ہو گئے
محبت کی تجارت میں خسارہ کر لیا ہم نے
اُسی کے نام کا پھر استخارہ کر لیا ہم نے
کسی کی آنکھ سے ٹپکے تو رزقِ خاک ہو جائے
وہی آنسو مقدر کا ستارہ کر لیا ہم نے
ابھی تو عشق کے سب زخم تازہ تھے مگر پھر بھی
بنا سوچے بنا سمجھے دوبارہ کر لیا ہم نے
اب تو ساری عمر گزرے گی تمہارے پیار میں
یوں نہیں کہ صرف میرا خواب ارزانی میں ہے
آسماں کا چاند بھی تالاب کے پانی میں ہے
ہر طرف مدہوش سی پھیلی ہوئی ہے اک فضا
کون سا جادو نہ جانے رات کی رانی میں ہے
میرے دل میں گو محبت کے سوا کچھ بھی نہیں
جانے میری کیا طلب تھی اور کیا درکار تھا
زیست کا ہر ایک لمحہ باعثِ آزار تھا
ہر گلی کوچے میں یوں تو چارہ گر موجود تھے
پھر بھی اس کے شہر کا ہر آدمی بیمار تھا
کانچ کے گلدان پر بیٹھی تھی تتلی غمزدہ
پھول اور تتلی کی چاہت کا عجب اظہار تھا
بازار حسن و شوق میں کمتر نہیں ہوں میں
چھو کر مجھے بھی دیکھ کہ خنجر نہیں ہوں میں
جس مے کدے میں جام اچھالے نہیں گئے
اس میکدے میں ہونے سے بہتر نہیں ہوں میں
باندھی گئی ہے پیر میں زنجیر کس لیے
میں تو ہوں اک خیال کہ پیکر نہیں ہوں میں
محبت
اس کے "م" میں معجزہ بھی ہے موت بھی
اس کا "ح" حکیم بھی ہے حاجت بھی
ب" میں شامل ہے بشر اور باطل بھی"
اس کا "ت" تم سے ہے اور تم تمام شد
سیمی چوہدری
اپنی انا سے بر سر پیکار میں ہی تھا
سچ بولنے کی دھن تھی سر دار میں ہی تھا
سازش رچی گئی تھی کچھ ایسی مِرے خلاف
ہر انجمن میں باعثِ آزار میں ہی تھا
سو کرتبوں سے زخم لگائے گئے مجھے
شاید کہ اپنے عہد کا شہکار میں ہی تھا
برہنہ عورت
کل میں نے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر
ایک برہنہ عورت کو بیان کیا
اس میں گھنٹے لگے
اور پھر بھی صفحہ
سفید اور غیر مطمئن ہے
Menses
میں پچھلے جنم میں
کسی ایک عورت کی صورت میں پیدا ہوا تھا
بمشکل میں جب سولہ کی عمر تک آ پہنچی
تو بِن پوچھے شادی کی رسی سے میرے
حسیں ہاتھ باندھے گئے تھے
اجالے ہو گئے زندہ مِری غمگین آنکھوں میں
تم آئے تو سدا کو بس گئی تسکین آنکھوں میں
لگایا کاجل عشق اس نے جب شوقین آنکھوں میں
سمٹ آئیں سبھی رنگینیاں رنگین آنکھوں میں
مہک اٹھتی ہیں جسم و جاں کی افسردہ فضائیں بھی
جب آتا ہے پرو کر وہ گل نسرین آنکھوں میں
یہی گلہ مِرا تجھ سے ہے اور خدا سے بھی
گزارتے ہو معافی سے بھی سزا سے بھی
وہ پہلے صرف مِری خواہشوں سے کھیلتا تھا
وہ کھیلتا ہے مگر اب مِری انا سے بھی
اب اور کیا میں اسے دوں ضمانتِ غمِ عشق
جو مطمئن نہیں ہوتا مِری وفا سے بھی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خدا کے ساتھ خدا کے حبیبﷺ کی باتیں
بہت قریب سے کی ہیں قریب کی باتیں
بس ایک جنبشِ ابرو کی بات ہے ساری
سخی کے سامنے کیا ہیں نصیب کی باتیں
مرض ہمارے مدینے سے ٹھیک ہوتے ہیں
ہمارے ساتھ نہ کیجے طبیب کی باتیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دور ہُوں اُنؐ سے، سزا ہے یہ بھی
پاس ٹھہروں تو خطا ہے یہ بھی
اہلِ نسبت کو وہ پہچانتے ہیں
میرے مولا کی عطا ہے یہ بھی
اور کیا نکہتِ فردوسِ بریں
بس مدینے کی ہوا ہے یہ بھی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تمام نُور کے دریا اسی میں بہتے ہیں
وہ ایک اسم جسے اسمِ پاک کہتے ہیں
ہوا کا دل بھی اسی نام سے دھڑکتا ہے
چراغ بھی تو یہی ورد کرتے رہتے ہیں
زمیں پہ آمدِ احمدﷺ سے نور پھیل گیا
چمک میں جس کی مہ و آفتاب گہتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت معراج النبیﷺ
اتنا شرف ہی کافی ہے اس رات کے لیے
یہ رات تھی خدا سے ملاقات کے لیے
سوچو وہ ذات ہو گی بھلا کس قدر بلند
تخلیقِ کائنات ہو جس ذات کے لیے
اللہ نے بچا کے رکھا نورِ فاطمہؑ
معراج میں رسولؐ کی سوغات کے لیے
منیر نیازی
منیر نیازی (اصل نام منیر احمد خان) 9 اپریل 1923سن عیسوی کو متحدہ ہندوستان کے ضلع ہوشیار پور کے ایک نواحی گاؤں خانپور میں پیدا ہوئے۔ آپ ایک سال کے تھے جب آپ والد فتح محمد خان نیازی کا انتقال ہو گیا، والدہ کی دوسری شادی کے بعد کے خانگی مسائل کی وجہ سے ان کا بچپن نہایت نامساعد حالات میں گزرا۔ ابتدائی تعلیم سری نگر سے حاصل کی، میٹرک (منٹگمری) ساہیوال سے کیا، دیال سنگھ کالج سے بی اے تک تعلیم حاصل کی۔ منیر نیازی نے 17 سال کی کچی عمر میں ایک خوبصورت بیوہ خاتون صغریٰ خانم کو اپنا رفیق زندگی بنایا، جو 1985 میں کینسر میں مبتلا ہو کر انتقال کر گئیں۔ پہلی اہلیہ کے انتقال کے بعد منیر نیازی کی تنہائی کو دیکھتے ہوئے بانو قدسیہ اور اشفاق احمد نے ان کی دوسری شادی رامپور، یو پی سے مہاجرت کر کے کراچی آ کر بس جانے والے خاندان کی ناہید بیگم سے کروا دی۔ دوسری شادی کے بعد بے چین منیر نیازی کی زندگی میں بڑی حد تک ٹھہراؤ آ گیا۔ منیر نیازی 26 دسمبر 2006 سن عیسوی کو انتقال کر گئے اور لاہور ماڈل ٹاؤن میں مدفون ہوئے۔
ہمیں دکھ طوالت سے ملے
ہر بار ہی
مجبوریوں کے پاؤں تلے آ کر
ہماری خواہشات پچک جاتی ہیں
کسی گیند کی طرح
ہر نئی صبح
تین نا مکمل غزلیں
میں نے دیکھا ہے اس زمانے میں
لوگ ماہر ہیں دل دُکھانے میں
خواہشیں اس طرح سے رکھی ہیں
جیسے لاشیں ہوں سرد خانے میں
اب تو کچھ بھی نہیں بچا باقی
دیر کر دی ہے تم نے آنے میں
وہ نہیں آئے گا
روز میں حسرتوں کی نگاہ اوڑھ کر
راستے کی طرف
دیکھتا ہوں کہ شاید کوئی لوٹ کر آئے گا
پھر بھی ڈرتا ہوں میں
بدگمانی کے سائے نحوست لیے
سبھی سے دور بیاباں میں رہ رہے ہیں ہم
نہ سُن رہے ہیں کسی کی نہ کہہ رہے ہیں ہم
رواں ندی تو نہیں ہے مگر ہوا کے سنگ
غُبار بن کے زمانے سے بہہ رہے ہیں ہم
کسی غریب کے ٹُوٹے ہوئے مکاں کی طرح
ذرا ذرا ہی سہی روز ڈھ رہے ہیں ہم
میرے کمرے کا سکون
میں اپنے کمرے کے سکون سے گھرا ہوا ہوں
میری بھاری بھرکم کتابوں کے ساتھ
ایک دیوار سے لے کر دوسری دیوار تک
کمرے کی موم بتیاں ایک دوسرے پر ڈھیر ہیں
میرا قالین جو گندا اور بھورے رنگ کا لگتا ہے
شبنمی ہونٹ نے چُھوا جیسے
کان میں کچھ کہے ہوا جیسے
لے کے آنچل اُڑی ہوا کچھ یوں
سیر کو نکلی ہو صبا جیسے
اس سے کچھ اس طرح ہوا ملنا
مل کے کوئی بچھڑ رہا جیسے
پھر آج اُن کی نامِ خدا یاد آ گئی
مجبور دل کی سعئ وفا یاد آ گئی
یاد آ گیا وہ میرے لیے اُن کا اضطراب
بکھری ہوئی وہ زلفِ رسا یاد آ گئی
پلکوں آنسوؤں کے گُہر یاد آ گئے
سہمی ہوئی لبوں پہ دُعا یاد آ گئی
مٹے گا کب تِری زلفوں کا خم خدا جانے
کھلے گا کب تِرا ظالم بھرم خدا جانے
یہاں تو پاتا ہوں ہر اک کو تشنہ لب ساقی
کدھر بڑھا تِرا دست کرم خدا جانے
وہی تشددِ گل چیں،۔ وہی غمِ صیاد
قفس میں ہیں کہ نشیمن میں ہم خدا جانے
احساس کا نور
میں نے چاہا تھا بہاروں میں ملوں میں تم سے
یہ خزاں راہ میں حائل تھی شراروں کو لیے
میں بھی گُم صُم سا رہا وقت کی آواز کے ساتھ
تم بھی آئیں نہ کبھی ساتھ بہاروں کو لیے
سرسراتی رہیں دامن کی ہوائیں یوں ہی
لمحات غمِ عشق کے بے باک بہت تھے
قصے میری چاہت کے خطرناک بہت تھے
میں خون کے دھاگوں سے انہیں سی نہیں پایا
زخموں کے گریبان مِرے چاک بہت تھے
آئی ہے بلا ایک فلک سے گمان تھا
جب غور کیا میں نے تو افلاک بہت تھے
اندیشۂ زوال ہے دستِ ہنر کے ساتھ
جو آج اک کمال ہے اہلِ نظر کے ساتھ
الجھی ہوئی کہانی سنو گے، سناؤں میں
اک دردِ لا دوا ہے دلِ بے خبر کے ساتھ
لمبی مسافتوں سے ہمیں خوف کچھ نہیں
راہزن بھی اپنے ساتھ ہے اک ہمسفر کے ساتھ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یہیﷺ دعا ہے، یہیﷺ دوا ہے، یہیﷺ وظیفہ
مِرا تو شام و سحر ہے اسمِ نبیﷺ وظیفہ
میں اس سے کہنے لگا کہ انﷺ پر درود پڑھ لے
کبھی کسی نے جو مجھ سے پوچھا کوئی وظیفہ
جو کوئی مشکل پڑے تو انﷺ کو پکار لینا
عمرؓ کے بیٹے سے ہم نے سیکھا یہی وظیفہ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
آپؐ کے جود و کرم کا ہے سہارا آقاﷺ
ورنہ اس دنیا میں ہے کون ہمارا آقاﷺ
ایک پل میں ہی بنا دیتا ہے بگڑی سب کی
آپؐ کی چشمِ عنایت کا اشارہ آقاﷺ
حسرتِ دید میں جلتے ہیں دُہائی سن لیں
اب نہیں ہوتا کسی طور گزارا آقاﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
غلام حشر میں جب سید الوریٰﷺ کے چلے
لِوائے حمد کے سائے میں سر اٹھا کے چلے
چراغ لے کے جو عشاق مصطفٰیﷺ کے چلے
ہوائے تُند کے جھونکے بھی سر جھکا کے چلے
وہیں پہ تھم گئی اک بار گردشِ دوراں
جہاں بھی تذکرے سلطانِ انبیاءﷺ کے چلے
کسی کی چاہ میں حد سے گزر گئے ہوتے
تو نام سارے زمانے میں کر گئے ہوتے
ہماری پیاس کی رکھ لی ہے لاج صحرا نے
سمندروں کے سہارے تو مر گئے ہوتے
جو میرے سینہ پہ ہنس کے وہ ہاتھ رکھ دیتے
تو زخم دل کے سبھی میرے بھر گئے ہوتے
ستمگر
میری کہانی میں
ایک ستمگر ہے
گلاب کی پنکھڑیوں سے پوچھو
ان کا حال کیا ہوا
کس طرح انہیں روندا گیا
پچھلے ایک گھنٹے سے
اس کی کنورژن کھولے دیکھ رہی ہوں
ان ساٹھ منٹوں میں ایک منٹ کے لیے بھی
اس کا آن لائن شو نہیں ہوا ہے
اور تقریباً ۱۴ بار میں
اس کا نام میسیج میں لکھ کر مٹا چکی ہوں
جاتی نہیں ہے اس کی مہک تک لحاف سے
آئی تھی ایک بار پری کوہ قاف سے
آنکھوں میں روشنی کا سمندر امڈ پڑا
جیسے ہی اس بدن کو نکالا غلاف سے
تجھ کو کبھی بھی میری ضرورت نہیں رہی
مایوس ہو گیا ہوں میں اس انکشاف سے
سانحہ، جو کبھی نہیں ہوا
میں اپنی ہتھیلی پر بنائے ہوئے گھر میں
زیادہ خوش نہیں تھا
جہاں چراغ میری آنسوؤں سے جل رہے تھے
جب ریت سے بھری ہوئی کھوپڑی میں
وحشت کے گلاب اُگ آئے
جنون شوق میں ایسا بھی وقت آتا ہے انساں پر
کہ آتی ہے ہنسی خود اپنے ہی جیب و گریباں پر
کلی خاموش پھول افسردہ شبنم ہر نفس گریاں
میں حیراں ہوں کہ روؤں یا ہنسوں فصل بہاراں پر
بہار سنبل و ریحاں سے تنہا کھیلے والے
بڑے احسان ہیں میرے بھی اس صحن گلستاں پر
تمنائے دل بے تاب حاصل ہوتی جاتی ہے
خلش جو دل میں میرے رگِ دل ہوتی جاتی ہے
یہ آنکھیں اور بے تاب نظارہ اے معاذاللہ
بساطِ آئینہ جلوہ گہِ دل ہوتی جاتی ہے
حجابِ رخ اٹھایا کس ادا سے حسن کے مالک
کہ جلووں سے تِرے مدہوش محفل ہوتی جاتی ہے
جب سے ہوئیں ہیں تجھ سے دو چار آنکھیں
تب سے ہو گئیں دیوانی، مِری یار آنکھیں
اب تو فقط تجھ کو ہی دیکھنا چاہتی ہیں
ہر پل ہر گھڑی مِری یہ لا چار آنکھیں
گر تِری خاطر اور کچھ نہ ہو سکا تو
دوں گی میں تجھ پہ اپنی یہ وار آنکھیں
اسے کہنا گلے ان ہی سے ہوتے ہیں
جو دل کے پاس ہوتے ہیں
شکایت ان سے ہوتی ہے
جو بے حد خاص ہوتے ہیں
میرا تجھ سے گلہ کرنا
تمہیں یوں ہی دلاسا دینا خفا کرنا
رابطے اتنے رکھیں جتنے سنبھالے جائیں
دل کے اطراف رہیں، ڈھنگ سے پالے جائیں
بَیر سے لڑنے کے ہتھیار بھی ڈھالے جائیں
اب محبت کے بھی ہتھیار نکالے جائیں
رشتے بنتے ہیں، ہمیشہ کے لئے بنتے ہیں
گر بکھر جائیں تو مشکل سے سنبھالے جائیں
کب سے ہیں اس مکان پہ تالے لگے ہوئے
آنگن میں بھی ہیں پیڑ سنہرے لگے ہوئے
بے فکر سو رہے ہیں سبھی خواب گاہ میں
ہر موڑ پر ہیں امن کے دستے لگے ہوئے
دل چاہتا ہے چوم لیں ہم ان کو پیار سے
پھولوں کے خوشنما ہیں جو گملے لگے ہوئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مقام مصطفیٰﷺ
بلند ہوتا نہ کیسے مقام احمدﷺ کا
احد کے نام سے نکلا ہے نام احمدﷺ کا
فلک نے رکھا ہے نعلین پاکؐ کو سر پر
کِیا ہے عرش نے یوں احترام احمدﷺ کا
بشر زمیں پہ مَلک رک گیا ہے سدرہ پر
خدایا! تُو ہی بتا اب مقام احمدﷺ کا
A room of one’s own
میرے پاس ایک کمرا ہے
اور تم ہو
یہ وہ کمرا ہے
جس نے مجھے
تمہارے بعد پناہ دی ہے
یہی بس کام کرنے میں لگے ہیں
محبت عام کرنے میں لگے ہیں
یہ دل خستہ عمارت بن چکا ہے
اسے نیلام کرنے میں لگے ہیں
یہی تو نیک نامی ہے کہ کچھ لوگ
ہمیں بدنام کرنے میں لگے ہیں
تیرے خیال سے یوں سجائی تمام رات
اک بت کو دیکھنے میں بتائی تمام رات
وہ اجنبی تھا صبح یہ معلوم ہو گیا
تصویر جس کی ہم نے بنائی تمام رات
جانے میں کس قفس کے خیالوں میں قید تھا
دیوار اپنے گھر کی جلائی تمام رات
بچھڑ کے تجھ سے مِرے لیے ہیں عذاب نیندیں
کہ رتجگوں کی زمیں پہ لگتی ہیں خواب نیندیں
کبھی کبھی اب بھی میری آنکھیں وہ ڈھونڈتی ہیں
ملاپ موسم کی خوبصورت گلاب نیندیں
میں رتجگوں کا سوال لے کر گیا ہوں جب بھی
تو ان کی جانب سے مل سکیں نہ جواب نیندیں
خبر ملی ہے کہ اٹھتا ہے دھواں پانی سے
آتشِ عشق بجھے، ممکن ہے کہاں پانی سے
میں زرِ اشک سنبھالوں تو ہنر ور ٹھہروں
میں اگر اشک اجالوں تو گماں پانی سے
ایک برسات ہر اک لمحہ رہے چاروں اور
جانے کیوں خالی رہے من کا جہاں پانی سے
مکافات عمل اٹل ہے مگر
ٹوٹ ٹوٹ کر آئیں گی آفتیں چشمِ بد بیں پر
مکافاتِ عمل اٹل ہے، مگر
یومِ جزا میں شرمسار تو ہوں گے
یہ چشمِ بد بِیں، یہ جعل ساز، یہ دغاباز لوگ
میرے چشمِ پُر آب میری آہ میری سسکیاں
بے کیف مسرت بھی مصیبت سی لگے ہے
اے دوست مجھے غم کی ضرورت سی لگے ہے
روداد محبت کی کسی کو نہ سناؤ
کچھ لوگ ہیں جن کو یہ شکایت سی لگے ہے
دم توڑتی قدروں کو بچانے کی اچھل کود
فطرت کے اصولوں سے بغاوت سی لگے ہے
اچھا ہمارے قرب سے پہلو تہی سہی
تم چاہتے ہو اب نہ ملیں تو یہی سہی
ہر بات ہم نے اپنی بتا دی دی ہے دوستو
اک داستانِ عشق مگر ان کہی سہی
کھل کر کہا ہے اس نے ہمیں آج بے وفا
پوری ہوئی ہے آج کسر یہ رہی سہی
فکر پابندئ حالات سے آگے نہ بڑھی
زندگی قید مقامات سے آگے نہ بڑھی
ہم سمجھتے تھے غمِ دل کا مداوا ہو گی
وہ نظر پُرسشِ حالات سے آگے نہ بڑھی
ان کی خاموشی بھی افسانہ در افسانہ بنی
ہم نے جو بات کہی بات سے آگے نہ بڑھی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کون جانے کس بلندی پر مِرے سرکارﷺ ہیں
سب جہاں مجبور ہیں، یہ احمدﷺ مختار ہیں
کہہ دو یہ ان سے جو حق کے طالب دیدار ہیں
حق سے ملنے کے مدینہ ہی میں کچھ آثار ہیں
آسماں والے بھی کرتے ہیں مدینہ کا طواف
عرشِ اعظم سے بھی اونچے یہ در و دیوار ہیں
چاند کی کشتی سجی ہے اور میں
جھیل ہے اک جل پری ہے اور میں
لو دِیے کی سسکیاں لیتی ہوئی
ٹمٹماتی روشنی ہے اور میں
دھوپ قرنوں کی مسافت سے نڈھال
تیز لمحوں کی ندی ہے اور میں
کل تک جو مِرے واسطے انمول رہا ہے
وہ آج زمانے کی زباں بول رہا ہے
اے یار! مِرے ساتھ تِرا پہلا قدم ہے
اے یار! تِرا پہلا قدم ڈول رہا ہے
آیا جو کبهی خواب گندهی لوریاں لے کر
وہ نیند میں اب میری زہر گهول رہا ہے
اب وہ مہکی ہوئی سی رات نہیں
بات کیا ہے کہ اب وہ بات نہیں
پھر وہی جاگنا ہے دن کی طرح
رات ہے اور جیسے رات نہیں
بات اپنی تمہیں نہ یاد رہی
خیر جانے دو کوئی بات نہیں
تِری وفا میں مِرے انتظار میں کیا تھا
خزاں کے درد میں زخم بہار میں کیا تھا
یہ سوچنا تھا نہ ہو جائیں اس قدر مجبور
یہ دیکھنا تھا تِرے اختیار میں کیا تھا
لبوں نے پھول تراشے نظر نے برسائے
مگر وہ کاوشِ مژگانِ یار میں کیا تھا
ٹوٹ کر خاک میں ملتے ہوئے تارے دیکھے
میرے انجام کے غم ناک نظارے دیکھے
میرے رسمی سے تبسم پہ بھروسہ نہ کرے
رات جاگی ہوئی آنکھوں کے اشارے دیکھے
جس کو شکوہ ہے محبت میں منافع نہ ہوا
آئے اور آ کے کبھی میرے خسارے دیکھے
زخمِ جگر کا کوئی مداوا نہ کر سکے
وعدہ جو کر لیا تھا وہ ایفا نہ کر سکے
ایسا بھی کوئی دل ہے جہانِ خراب میں
جس کو وہ چشمِ مست شکیبا نہ کر سکے
ہم دل زدوں کی پیاس بجھانے کے واسطے
صحرا کرے وہ کام جو دریا نہ کر سکے
نغمہ الفت کا گا دیا میں نے
عشق کو جگمگا دیا میں نے
یارو اپنے ہی خون سے دیکھو
اس نگر کو سجا دیا میں نے
جو تھے بیگانے بن گئے اپنے
یہ بھی کر کے دکھا دیا میں نے
جب سے ہم مسکرانا بھول گئے
تب سے لکھتے ہیں کہنا بھول گئے
ایک ہم ہی نہ جی سکے، ورنہ
جینے والے تو مرنا بھول گئے
کیا کہا ہم سے ملنے آئے ہیں
لگتا وعدے سے پھرنا بھول گئے
دریا کھنگالنا مِرا آسان کر گیا
تہہ میں اتار کے مجھے خود ہی بھنور گیا
کیوں ہیں چراغ پر یہ ہوائیں چراغ پا
لگتا ہے کوئی کان ہواؤں کے بھر گیا
دنیا کے اس سفر میں ضروری ہے ہمسفر
ورنہ سمجھیۓ آپ کا لطفِ سفر گیا
رحم کی اپیل
وہ جس نے فیصلہ کرنے کا پیشہ چن لیا آخر
اسے کہہ دو؛ قلم کو اب ذرا زحمت عطا کر دے
مجھے زنداں میں ڈالے وہ مجھے سُولی چڑھا دے
یا کوئی کچھ بھی سزا دے دے
میں سب تسلیم کرتا ہوں
کیا بتاؤں کے مِرے واسطے کیا کیا تم ہو
میری غزلیں مِری نظمیں مِرا لہجہ تم ہو
دنیا والوں سے تعلق نہیں رکھا میں نے
مجھ کو دنیا سے غرض کیا مِری دنیا تم ہو
تم کو اس درجہ عقیدت سے پڑھا ہے جیسے
آسمانوں سے جو اترا وہ صحیفہ تم ہو
مِرے سخن میں تِرا ذکر گر نہیں ہو گا
مِرا کہا ہوا کچھ معتبر نہیں ہو گا
میں چاہتا ہوں کہ تُو مجھ کو بیوفا سمجھے
مِرا یہ چاہا ہوا بھی مگر نہیں ہو گا
تجھے بھی مجھ سے بچھڑنے کا رنج ہو گا مگر
کہ جس قدر ہے مجھے اس قدر نہیں ہو گا
لباسِ ہست بدن سے کہیں اتار آئے
کہاں کے لوگ کہاں زندگی گزار آئے
یہ سوچ کر کہ تجھے چین آ گیا شاید
تیری گلی میں تجھے آج پھر پکار آئے
فریبِ رنگ سے ختمِ خزاں نہیں ممکن
چمن تمام نہ مہکے اگر بہار آئے
ہم سے وہ آ ملے ہیں بڑی رد و کد کے بعد
ریشم سی گفتگو بھی ہوئی نیک و بد کے بعد
بادِ صبا پہ چھائے ہیں جھکڑ سموم کے
گلشن ہے خار خار گلِ سر سبد کے بعد
دامن کو جھاڑ پونچھ کے آیا ہے تیرہ بخت
نیکی کوئی رہی نہیں بغض و حسد کے بعد
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کملی والےؐ کو دل میں بسا لیجیے
لطف جنت کا دنیا میں پا لیجیے
تم اندھیرے میں بھی روشنی پاؤ گے
خاکِ طیبہ کو سُرمہ بنا لیجیے
سگ مدینے کا کوئی ملے گر کہیں
بڑھ کے سینے سے اس کو لگا لیجیے
تلاطم
دل آج بہت گھبراتا ہے
دل آج بہت گھبراتا ہے
طوفان و تلاطم کے پالے گرداب سنبھالے ہیں مجھ کو
اک راحت جاں ہمدم کی طرح کچھ خواب سنبھالے ہیں مجھ کو
یوں میرے غموں کے سنجیدہ آداب سنبھالے ہیں مجھ کو
غزل میں درد کا جادو مجھی کو ہونا تھا
کہ دشت عشق میں باہو مجھی کو ہونا تھا
اسے تو چاند بھی بے چارگی میں چھوڑ گیا
اندھیری رات کا جگنو مجھی کو ہونا تھا
ذرا سی بات پہ یہ جوگ کون لیتا ہے
تمہارے پیار میں سادھو مجھی کو ہونا تھا
لالہ و گل کا لہو بھی رائیگاں ہونے لگا
پنکھڑی پر قطرۂ شبنم گراں ہونے لگا
رفتہ رفتہ آنکھ سے آنسو رواں ہونے لگا
وقت کے خاکے میں نقش جاوداں ہونے لگا
اس طرح تحریر کے الفاظ لو دینے لگے
دیکھتے ہی دیکھتے کاغذ دھواں ہونے لگا
مہیب سی شب چمکتے دن پر جھپٹ رہی ہے
وبا کی رُت تو مرن کے منتر ہی رٹ رہی ہے
کھرچ کھرچ کر نکال لیتا سفیدی دن کی
گھڑی پہ چھوڑا سو رات آنکھوں میں کٹ رہی ہے
اداس رنگوں کے قہقہوں کا شور سن کر
ہماری گلیوں کی مسکراہٹ سمٹ رہی ہے
اپنی دہلیز پہ گُل دان برابر رکھے
پھر تِرے آنے کے امکان برابر رکھے
وہ مجھے چھوڑ گیا رنج نہیں، رنج ہے یہ
اُس نے باندھے ہوئے پیمان برابر رکھے
لوگ اب نام و نسب نام و نسب کرتے ہیں
خالقِ ہست نے انسان برابر رکھے
زخم دل کے یوں دکھانا چاہیے
رنج میں بھی مسکرانا چاہیے
رُوٹھے ساجن کو منانا چاہیے
وعدۂ اُلفت نبھانا چاہیے
سننے والا سُن کے جس کو داد دے
حال دل کا یوں سنانا چاہیے
بجائے گل مجھے تحفہ دیا ببولوں کا
میں منحرف تو نہیں تھا ترے اصولوں کا
ازالہ کیسے کرے گا وہ اپنی بھولوں کا
کہ جس کے خون میں نشہ نہیں اصولوں کا
نفس کا قرض چکانا بھی کوئی کھیل نہیں
وہ جان جائے گا انجام اپنی بھولوں کا
کوئی نشہ نہ کوئی خواب خرید
تیرہ بختی ہے، ماہتاب خرید
کیسۂ طمع میں چھپا دینار
پھر بلا خوف احتساب خرید
بڑی مبسوط ہے کتاب خلق
کوئی اچھا سا انتخاب خرید
جاری و ساری ہے جلسہ عشق کا
دے رہا ہے فیض کتبہ عشق کا
نا مکمل ہو گا وہ میرے بغیر
جب لکھا جائے گا شجرہ عشق کا
پہلے دن سے عشق میری درسگاہ
میرے کاندھے پر ہے بستہ عشق کا
تمہارے ہی ہم نام کے سنگ رہنا
جدائی کے لمحے جو نازل ہوئے تو
وہ قدموں کی چھاپوں پہ پاؤں کو دھر کر
جہاں تیرے نقشِ قدم جڑ گئے تھے
اسی باغ میں جس میں تیرا و میرا
سفر دو گھڑی کا تھا لکھا مِری جاں
میں روتی ہوں مگر کہتی نہیں ہوں
بہت حساس ہوں، ضدی نہیں ہوں
گُھٹن ہے اور گہری بے بسی ہے
کسے بتلاؤں میں اچھی نہیں ہوں
گزرتی ہوں میں کیسی کیفیت سے
بہت دن سے میں روئی بھی نہیں ہوں
تم نے دیکھا ہے کبھی غور سے کیا لگتا ہے
شام کے وقت دِیا شمس نما لگتا ہے
میں نہیں چاہتا چھوڑوں یہ اداسی تیری
دل مِرا اب بھی کہیں تیرے سِوا لگتا ہے
چاہے جتنا بھی پرانا ہو کسی کا چہرہ
اس کی گلیوں سے گزرتے ہی نیا لگتا ہے
گر نہیں وصف تو پھر عیب اچھالے میرے
عشق میں کچھ تو رہیں زندہ حوالے میرے
خوش نہیں آیا مجھے اس کا مزاجِ تشکیک
خوش نہیں آئے اسے ڈھنگ نرالے میرے
وہ عجب ساعتِ خوشرنگ میں بچھڑا مجھ سے
رنج و غم بھی نہ کِیے اس نے حوالے میرے
صبحِ طرب کو کون پکارے ہم کو ہے غم کی شام بہت
پہروں پہروں جب دل تڑپے، ملتا ہے آرام بہت
صبحِ وصل اور صبحِ مسرت سب کے لیے کب ہوتی ہے
ہم سے غم کے ماروں کو ہے مے خانے کی شام بہت
زخم ملے اور خنجر بھی کچھ خار و سنگ و نشتر بھی
ہم نے یارو شہرِ وفا میں پائے ہیں انعام بہت
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ملتی ہے مقدر سے رسائی تِرےﷺ درکی
اے کاش کہ مل جائے گدائی ترے درکی
خالق بھی ہے مالک بھی ہے تُو سارے جہاں کا
مخلوق نے ہے آس لگائی ترےﷺ در کی
جو کچھ بھی ملا مجھ کو اسی در سے ملا ہے
میں کیوں نہ کروں مدح سرائی ترے در کی
یہ عجیب میرے نصیب تھے
وہ جو دُور تھے تو قریب تھے
وہ ہی اب بھی ہیں مِرے ہم نشیں
وہ ہی کل بھی میرے حبیب تھے
مِری زندگی کے وہ ہم سفر
مِری منزلوں سے قریب تھے
محبوب
محبوب حسین پر سے میں قربان جاؤں
جب تک جیوں محبوب کا دم بھروں
سکھیو! دعا کرو
کہ میں یہ ذمہ داری آخر تک نبھا سکوں
آنسوؤں کے دھاگوں کے ساتھ اپنے سینے کے زخم سی لوں گا
جب رات کی ناگن ڈستی ہے
نس نس میں زہر اترتا ہے
جب چاند کی کرنیں تیزی سے
اس دل کو چیر کے آتی ہیں
جب آنکھ کے اندر ہی آنسو
سب جذبوں پر چھا جاتے ہو
ہم کو معلوم ہے باتوں کی صداقت تیری
لوگ کیا کیا نہیں کرتے ہیں شکایت تیری
ملکۂ حسن نہیں پھر بھی تو اے جان وفا
اچھی لگتی ہے بہت ہی مجھے صورت تیری
کوئی مشکل بھی ہو خاطر میں نہ لاتے تھے کبھی
حوصلہ کتنا بڑھاتی تھی رفاقت تیری
مر گئے لوگ سبھی اپنے پرائے گھر کے
صحن میں رکھتے تھے جو روز صراحی بھر کے
یہ علاقہ تو بیاباں سے بھی بد تر ہے جہاں
آدمی گھر سے نکلتا ہے بہت ڈر ڈر کے
بولنے والوں کی کاٹی ہیں زبانیں کس نے
ان سے مل کر مجھے احوال بتا اندر کے
تجھ سے اک شام کیا ملی تنہا
اب بھٹکتی ہے زندگی تنہا
تجھ سے بچھڑی تو یہ ہوا محسوس
کیسے گزرے گی زندگی تنہا
جُرم ثابت ہوا تھا اس پر بھی
کیوں سزا مجھ کو دی گئی تنہا
اشک کی تمنا ہے
کہ اسے جیا جائے
عمر کی روانی نے
اک طلب ہے کر دی کہ
ڈھلتی ہوئی سانسوں کو
شُکر سے لیا جائے
کب مِرے ساتھ ساتھ روتی ہے
جب میں سو جاؤں رات روتی ہے
تیری انگشت سے اترتے ہی
ہر انگھوٹھی کی دھات روتی ہے
ایک رانی ہے جو حویلی میں
پہن کر زیورات روتی ہے
ارمان
بحرِ جذبات میں آیا ہے تلاطم کیسا
میں جو بکھرا ہوں تو اب مجھ کو سمٹنا ہو گا
میں نے کیا کیا نہ کیا دل کے بہلنے کے لیے
مجھ کو معلوم ہے ہر غم سے نمٹنا ہو گا
سرِ بازار تماشے کی طرح ہیں ارماں
چارہ گر کوئی مداوا تو نہیں ہے دل کا
غم نہ کر جو فرقت میں بسر ہوتی ہے
ظلمتِ شب ہی سے تائیدِ سحر ہوتی ہے
اب نہ آئے کوئی تیر خطا ہو کیوں کر
ہر جفا مجھ پہ بہ عنوانِ دِگر ہوتی ہے
رشک کی آگ میں جلتا ہے تُو اے دل ناحق
حسنِ بے باک کی بے باک نظر ہوتی ہے
سنو وہ جب لوٹ کر آئے تو اس کو کہنا
شفق بہت انتظار کرتی تھی تمہارا
تم سے ملنے کو تم سے بات کرنے کو
بہت ترستی تھی وہ
سنو اسے کہنا تم بن ہر لمحہ اس کے لیے وحشت زدہ تھا
اسے آس تھی، اسے امید تھی
گاہے یہ توجہ، یہ کرم کس کے لیے ہیں
اور گاہے تغافل کے ستم کس کے لیے ہیں
ہنگامِ شب و روز میں الجھے ہوئے لوگو
یہ عیش و طرب رنج و الم کس کے لیے ہیں
لشکر تو کسی جنگ پہ آمادہ نہیں ہیں
ہاتھوں میں مگر تیغ و علم کس کے لیے ہیں
انا زدہ تھا کہیں پر کہیں پر آن زدہ
زمیں کی زد سے نکلنے تک آسمان زدہ
یہاں پہ دشت و سمندر کی بات مت کرنا
ہمارے شہر کا ہر شخص ہے مکان زدہ
خیال و خواب کے موسم بدلنے والے ہیں
ہجوم وہم و تصور میں ہے گمان زدہ
تیری سانسوں میں رفو شام میں رکھا ہوا میں
اِک دِیا وقت کے اہرام میں رکھا ہوا میں
تُو سمندر کے کسی خواب کا اوڑھا ہوا دن
اور تہہِ وحشتِ صد کام میں رکھا ہوا میں
میں تِرے شہر کے موسم کی کسی شام کا دُکھ
اور کسی کوچۂ گُمنام میں رکھا ہوا میں
زندگی کی راہوں میں یہ غبار کیسا ہے
ہر طرف زمانے میں خلفشار کیسا ہے
کیسی بادشاہی ہے، اور کہاں کی مُختاری
بس میں کچھ نہیں تو پھر اختیار کیسا ہے
جانے کس کے وعدوں پر دل کو اعتبار آیا
جانے میری نظروں کو انتظار کیسا ہے
میں اپنا خود سہارا ہوں
میں عورت ہوں جہانِ ہست کی تفسیر ہوں گویا
تمدن کا نشاں، تہذیب کی تصویر ہوں گویا
جبینِ وقت پر لکھی ہوئی تحریر ہوں گویا
سُلگتی شام کے منظر کا میرا روشن ستارا ہوں
میں اپنا خود سہارا ہوں
اب کے جو دِیا جلاؤں گا
آندھی سے اسے بچاؤں گا
اندازہ کروں گا آسماں کا
اک روز پتنگ اڑاؤں گا میں
بندے کا خدا سے ہے تعلق
تم دیکھو گے اور دکھاؤں گا میں
دل کی آواز جو سنی ہوتی
اشک میں رات کب کٹی ہوتی
کوئی بھٹکی ہوئی پری اب تو
دشت میں ہم سے آ ملی ہوتی
بھول جو جائے روکنا اس کے
اک صدا حلق میں پھنسی ہوتی
اس کی سہیلی سے
جب سے اس کا ساتھ چھٹا ہے
میری طرح تم بھی بے کل ہو
کتنی حیران، کتنی گم صم
دیکھ کے تم کو اس عالم میں
اب مجھ کو بھی رحم آتا ہے
تم اس کی ہمراز رہی ہو
تیرا ہنسنا ہے ابتدائے ہجر
میرا رونا ہے انتہائے ہجر
اک زمیں، سات آسمانوں میں
کچھ نہیں دائمی سوائے ہجر
یہ ستارے ہیں منجمد آنسو
ہے فلک اصل میں قبائے ہجر
خانہ بدوش وقت سے آزاد ہیں
ابھری چھاتیوں، بھرے کولھوں اور روشن آنکھوں والی
معصوم خانہ بدوش
تم ابھی لڑکپن اور جوانی کی جڑواں
سرحد پر کھڑی ہو
اور سمجھتی ہو کہ کائنات تمہارے پُر شور دل کی
مسکرا دیں تو کوئی خیر خبر آ جائے
ہوں جو برہم تو کٹا طشت میں سر آ جائے
دوستو راہ میں منزل کے نشاں بھی دیکھو
چلتے چلتے نہ پھر آغاز سفر آ جائے
منفرد حسن کی دشوار ہے پردہ داری
سو حجابوں میں بھی انداز نظر آ جائے
تعلق ہے بہت گہرا ہمارا
نہ ٹوٹے گا کبھی رشتہ ہمارا
بنا تیرے نہ جی پائیں گے ہم تو
تِری سانسوں سے ہے ناطہ ہمارا
ملی ہے تیرگی سے روشنی جو
تِری آنکھوں میں ہے چشمہ ہمارا
صدائے عشق میں کچھ خواب ہیں ملائے گئے
ستارے ٹانک کے مہتاب ہیں بنائے گئے
میں کہہ رہا کوئی اور یہ کہے نہ کہے
گلوں میں رنگ تِرے رنگ سے اٹھائے گئے
ثنائے عشق میں اک بات یہ بھی ہوتی ہے
کوئی گِلہ نہیں ، لب بے صدا ہی پائے گئے
انقلاب اور بھی ہیں گردشیں ایام کہ بس
اور بدلے گا نظامِ سحر و شام کہ بس
منزلِ عشق میں ہر گام پہ دشواری ہے
نظر آغاز میں آتا ہے وہ انجام کہ بس
امتحانِ دلِ خود دار مجھے لینا ہے
تُو بھی چیخ اٹھے گی اے گردشِ ایام کہ بس
دل کسی اور سے لگاؤں کیا
کیا کہا، تم کو بھول جاؤں کیا
تم نے اپنا بسا لیا ہے تو میں
گھر کسی اور کا بساؤں کیا
میں جو کہتی تھی تجھ پہ مرتی ہوں
اب تجھے مر کے بھی دکھاؤں کیا
آداب زندگی سے بہت دور ہو گیا
شہرت ذرا ملی تو وہ مغرور ہو گیا
اب رقص خاک و خوں پہ کوئی بولتا نہیں
جیسے یہ میرے ملک کا دستور ہو گیا
دشمن سے سرحدوں کو بچانا تھا جس کا کام
اپنوں کو قتل کرنے پہ مامور ہو گیا
گلوں کو شعلہ مزاجی سکھائی جاتی ہے
چمن کی آگ چمن میں لگائی جاتی ہے
جنونِ فرقہ پرستی ارے معاذ اللہ
ہر اک قدم پہ قیامت اٹھائی جاتی ہے
وہ آگ جس نے مِرے گلستاں کو پھونک دیا
نگاہ شیخ و برہمن میں پائی جاتی ہے
لفظ کچھ اور ہیں ابرو کا اشارہ کچھ اور
اب کے لگتا ہے کہ ظالم کا ہے منشا کچھ اور
مجھ کو معلوم نہ تھا ایسی بھی ہوتی ہو گی
زندگی کا تھا تصور میں تو نقشا کچھ اور
یوں خموشی سے نہاتا نہیں خوں میں اپنے
اے مِری خاک وطن تجھ سے ہے وعدہ کچھ اور
حقیقتوں کی طلب میں سراب دیکھے ہیں
ہمارے دل نے بھی کیا کیا عذاب دیکھے ہیں
تم اِن بُجھی بُجھی آنکھوں میں دیکھتے کیا ہو
تمام عمر ان آنکھوں نے خواب دیکھے ہیں
کرم کے طعنے نہ دو ہم نے اس زمانے کے
ستم ہی دیکھے ہیں اور بے حساب دیکھے ہیں
پتھر سے ٹکرانا تھا
زخم تو لازم آنا تھا
کیا دھراتے پھرتے اب
قصہ بہت پرانا تھا
کیا پھر جچتا منظر کوئی
آنکھ میں روپ سہانا تھا
میں تیرے شہر میں دیکھا گیا ہوں
مجھے لوگوں نے آ کر یہ بتایا
میں تیرے شہر میں دیکھا گیا ہوں
اک مدت سے اجنبی تم ہو
اس پہ جینے کی آس بھی تم ہو
دل تو کہتا ہے جانے کیا کیا کچھ
یہ سلوٹ وقت کے ماتھے پہ کچھ اچھا نہیں لگتا
کہ چہرہ آئینے میں دیر تک اپنا نہیں لگتا
تِری یادوں کی خوشبو یوں ہمیشہ ساتھ رہتی
میں تنہائی میں گھر کر بھی کبھی تنہا نہیں لگتا
نہ سنگریزے، نہ خارِ گل، نہ تلوے خونچکاں اپنے
نہ جانے کیوں تِرے کوچے کا یہ رستہ نہیں لگتا
کیا کیا نہ سہے ہم نے ستم آپ کی خاطر
یہ جان بھی جائے گی صنم آپ کی خاطر
تڑپے ہیں صدا اپنی قسم آپ کی خاطر
نکلے گا کسی روز یہ دم آپ کی خاطر
اک آپ جو مل جائیں تو مل جائے خدائی
منظور ہیں دنیاں کے الم آپ کی خاطر
اسے عشق کیا ہے پتا نہیں
کبھی شمع پر جو جلا نہیں
وہ جو ہار کر بھی ہے جیتتا
اسے کہتے ہیں وہ جؤا نہیں
ہے ادھوری سی میری زندگی
میرا کچھ تو پورا ہوا نہیں
نوکِ سناں پہ علم و ہنر بولتا رہا
دھڑ سے الگ ہوا بھی تو سر بولتا رہا
اک عمر تیری چاپ کو ترسے ہیں کان بھی
اک عمر تیرے نام پہ گھر بولتا رہا
اک دن میں بازیاب ہوا اپنی قید سے
آسیب میرے منہ پہ مگر بولتا رہا
کتابیں ساتھ دیتی ہیں (عالمی یوم کتاب کے حوالے سے)
کتابیں ساتھ دیتی ہیں
کتابیں روشنی ہیں، دوست ہیں اور رہنما بھی ہیں
کسی منزل پہ جانا ہو
کسی رستے پہ چلنا ہو
کتابیں مشعلیں بن کر
میں نے کہا کہ راز چھپایا نہ جائے گا
بولے کسی سے منہ بھی لگایا نہ جائے گا
ہو ایک دو گھڑی کا تو ہم جی پہ سہہ بھی لیں
آٹھوں پہر کا غم تو اٹھایا نہ جائے گا
اس نامراد دل نے یہ ٹھانی ہے اے خیال
سوئی محبتوں کو جگایا نہ جائے گا
زخموں کے پھول، داغِ جگر چھوڑ جاؤں گا
دامن میں زندگی کے گُہر چھوڑ جاؤں گا
لے جاؤں گا بچا کے دلِ خود نگر کو مَیں
اہلِ ستم کے واسطے سر چھوڑ جاؤں گا
روشن ہر ایک موڑ پہ کر جاؤں گا چراغ
تابندہ زندگی کا سفر چھوڑ جاؤں گا
ماہ و انجم کی روشنی گُم ہے
کیا ہر اک بزم سے خوشی گم ہے
چاند دُھندلا ہے چاندنی گم ہے
حسن والوں میں دلکشی گم ہے
زندگی گم نہ دوستی گم ہے
یہ حقیقت ہے آدمی گم ہے
بغض رکھتا نہیں میں سینے میں
تم نے کاٹی ہے عمر کینے میں
آدمی، آدمی نہیں رہتا
عشق آتا ہے جب قرینے میں
صاف انکار بھی نہیں کرتا
کچھ تو اچھا ہے اس کمینے میں
بھر رگِ جاں میں زہر اتنا بھر
قہر مچ جائے، قہر اتنا بھر
نفرتوں کو دماغ میں بھر دے
زہر پھیلا دے، زہر اتنا بھر
شرم و تہذیب ڈوب ہی جائے
بے حیائی سے شہر اتنا بھر
غم بھلانے کی رُت نہیں آئی
اس کے آنے کی رت نہیں آئی
بے قراری نکال دل سے تُو
دل جلانے کی رت نہیں آئی
اپنی قسمت میں ہے لہو رونا
مسکرانے کی رت نہیں آئی
ہوا سے ہاتھ چھڑانا بہت ضروری تھا
کہ اب چراغ جلانا بہت ضروری تھا
ہمارے زخم اگر اور بڑھ گئے بھی تو کیا
تمہارا درد بٹانا بہت ضروری تھا
مِری زمین مِرے دل میں بھی شگاف سا ہے
یہ راز تجھ کو بتانا بہت ضروری تھا
من تُو شُدم
میں تمہیں جانتی ہوں
مجھے معلوم ہے
تم کب سے تنہائی کے نشانے پر ہو
تم اس کی عادی بن چکی تھی
تم نے زندگی کو
راز نامے
راز وحدت کا ہُوا ہے اب عیاں
جو حقیقت کا سراسر ہے بیاں
کون ہوں، میں کون ہوں، میں کون ہوں؟
سر بسر اس بات پر حیران ہوں
یار سے مل، دُور ہو اغیار سے
ساتھ غیروں کے نہ رہتا یار سے
اے ماہ جبیں شکل دکھانے کے لیے آ
بے نور ہے دل شمع جلانے کے لیے آ
ماضی کے چراغوں کو جلانے کے لیے آ
سینے میں وہی آگ لگانے کے لیے آ
لے جا مِری ترسی ہوئی آنکھوں کی دعائیں
مایوس نہ کر آس بندھانے کے لیے آ
تیری صورت تِرا لہجہ تِرے افکار سے بس
اتنے نزدیک تو آئے تِرے کردار سے بس
اتنے جذبات میں آ کے نہ مجھے پیار کریں
لگ بھی جائے نہ نظر پیار کو اس پیار سے بس
گھر کی دیوار بھی کرنے لگی کانا پھوسی
اک جھلک دیکھ کے توبہ کریں دیدار سے بس
وہ سامنے بھی نہیں پھر بھی ان کا شک کیوں ہے
کھلا نہیں ہے اگر پھول تو مہک کیوں ہے
یہ جوئے شیر کہیں جوئے خوں نہ بن جائے
کہ عزم تیشہ و فرہاد میں چمک کیوں ہے
اسی کو کیا میں محبت کی زندگی کہہ دوں
یہ سلسلہ تِری یادوں کا آج تک کیوں ہے
اس کو جانا پڑا ضرورت سے
میں نے رخصت کیا محبت سے
تُو نہیں تھا تو میری آنکھوں نے
تجھ کو ڈھونڈا ہے کتنی حسرت سے
سب کی نظروں کا میں بنی مرکز
ڈر مجھے لگ رہا ہے خلوت سے
ستم ہوں گے مگر پیہم نہ ہوں گے
کرم ہوں گے مگر جب ہم نہ ہوں گے
اگر تُو نے ستم سے ہاتھ کھینچا
تو کیا ہم آشنائے غم نہ ہوں گے
کہِیں تُو بجھ نہ جائے شمعِ محفل
پتنگوں کے عزائم کم نہ ہوں گے
یہ ہم فقیر جو کم کم دھمال ڈالتے ہیں
زمین ہلتی ہے جس دم دھمال ڈالتے ہیں
تمہیں کنارے سے دریا دکھانے کا مطلب
یہ وہ جگہ ہے جہاں ہم دھمال ڈالتے ہیں
ہمارے بخت فقیروں کی انگلیوں پہ نثار
جہاں زمرد و نیلم دھمال ڈالتے ہیں
تجھے بھی جانچتے اپنا بھی امتحان کرتے
کہیں چراغ جلاتے، کہیں دھواں کرتے
سفینہ ڈوب رہا تھا، تو کیوں نہ یاد آیا
تِری طلب، تِرے ارماں کو بادباں کرتے
ہوا تھی تیز، جلاتے رہے دلوں کے چراغ
کٹی ہے عمر، لہو اپنا رائیگاں کرتے
جھک گئی گردن وفا کی وہ مقام آ ہی گیا
عقل منہ تکتی رہی اور عشق کام آ ہی گیا
ہلکی ہلکی مسکراہٹ کی حسیں لہروں کے ساتھ
آج ان نازک لبوں پر میرا نام آ ہی گیا
گوشہ گوشہ بن گیا اک محشرستانِ ظہور
دل کے آئینے میں وہ ماہِ تمام آ ہی گیا
اٹھ گیا انساں کے دل سے بندہ و آقا کا فرق
مسافتوں کی حدوں کو چُھو کر میں قُرب تیرا حصار کر لوں
یہ چند لمحے جو بچ گئے ہیں انہیں میں پھر سے شمار کر لوں
تلاش کرتی رہی ہوں تم کو، مجھے تمہاری ہی جستجو تھی
ملے ہیں اب نقشِ پا تمہارے، میں ان پہ خود کو نثار کر لوں
میں صحرا صحرا بھٹک رہی ہوں کہ منزلوں کی خبر نہیں ہے
نشان منزل یہی ہے شاید،۔ سفر پہ ہی انحصار کر لوں
لوٹ کے وہ آئیں گے اک دن دل میرا یہ کہتا ہے
میں نے ان کو چاند کہا تھا، ڈوبا چاند نکلتا ہے
کانوں میں ہے سُر کا میلہ جب سے وہ آواز سنی ہے
آنکھوں میں ہیں رنگ دھنک کے جب سے ان کو دیکھا ہے
دن کو میں نے چاند چُھؤا ہے، رات کو سُورج چُوما ہے
میری بات کو جُھوٹ نہ سمجھو مجھ پر عشق کا سایہ ہے
عشق کا دعویٰ غلط ہے بات ہے بیکار کی
بات مانی ہے کبھی کیا قافلہ سالار کی
جب کہا تھا قافلہ سالار نے؛ مل کر چلو
کیسے جرأت ہو گئی پھر آپ کو انکار کی
بن رہے ہیں بے ہنر بھی صاحبِ علم و ہنر
کوئی عزت ہی نہیں ہے جبہ و دستار کی
آہوں کے بسیرے ہیں ارمانوں کی بستی ہے
کہتے ہیں جسے ہستی ادھ سُلجھی پہیلی ہے
ناوک تِری باتوں کے کچھ ایسے لگے دل پر
اب سانس بھی لیتا ہوں تو روح نکلتی ہے
اک جسم تھا جو میرا وہ خاک ہوا کب کا
اک روح بچی تھی جو اب وہ بھی پگھلتی ہے
یہ تھکی تھکی سی مُسافتیں انہیں ہو سکے تو گُزار دے
میری چارہ گر، میری ہمسفر، مجھے پھر نویدِ بہار دے
مِری زندگی کے یہ سلسلے کہیں مرقدوں سے تھے جا ملے
میں کبھی کا ان میں اُتر گیا مجھےتُو بھی مُشتِ غُبار دے
یہ اندھیری رات یہ وحشتیں، یہ شِکستہ چاپ یہ آہٹیں
تِری سمت میرے قدم اٹھیں مجھے حوصلے وہ اُدھار دے
ہجر کے ماروں پہ ہے نشتر چلائے الفراق
کیوں مِرے مولا! مِرے دل کو جلائے الفراق
شاہ زادہ چل دیا جب، شاہ زادی چیخ کر
بال اپنے نوچ کر کہتی تھی؛ ہائے الفراق
جا بُلا عمّو کو اپنے، ہنس کے کہتا تھا لعیں
اور سکینہؑ رو کے دیتی تھی صدائے الفراق
اوجھل ہوئی نظر سے بے بال و پر گئی ہے
لفظوں کی بیکرانی بستوں میں بھر گئی ہے
دیوار دل پہ اب تک ہم دیکھتے رہے ہیں
تصویر کس کی لٹکی کس کی اتر گئی ہے
اس کی گلی میں ہم پر پتھر برس پڑے تھے
جیسا گزر ہوا تھا، ویسی گزر گئی ہے
خون کے دیپ فصیلوں پہ جلا رکھے ہیں
اپنے انداز زمانے سے جدا رکھے ہیں
دل میں امید نہیں، لب پہ کوئی بات نہیں
ہاتھ پھر بھی تو دعاؤں کو اٹھا رکھے ہیں
گُھل رہا ہے کہ وہ اوروں کو بتائے کیسے
خواب گُونگے نے بھی آنکھوں میں بسا رکھے ہیں
فریبِ نو کے بھنور میں اُتارتا ہے مجھے
یہ کون پچھلے پہر پھر پکارتا ہے مجھے
شکستہ حال ہوں رنج و الم سے چُور ہوں میں
نگاہِ لُطف سے اب کیا سنوارتا ہے مجھے
نظر پہ اپنی چڑھاتا ہوں جس قدر اس کو
اسی قدر وہ نظر سے اتارتا ہے مجھے
فضا میں زہر گھولا ہم نے خود اب دم نکلتا ہے
اجل کا پیرہن اوڑھے ہر اک موسم نکلتا ہے
بھٹکتے کیوں ہیں مرہم کیلئے ہم دشت و صحرا میں
ہمارے زخم کے اندر ہی سے مرہم نکلتا ہے
ہماری کامرانی نے کِیا سورج کو بھی زخمی
کہ اک سایہ ہمارے جسم سے پر خم نکلتا ہے
آخری بار مجھ سے مل جاؤ
اس سے پہلے کہ میرا رُوپ بُجھے
آنسوؤں کی روانیاں تھم جائیں
نام جپتے تمہارا ہونٹ مِرے
ایک مرکز پہ آ کے جم جائیں
آخری بار مجھ سے مل جاؤ
تارنامے
مجھ کو بیخود کر رہی تیری صدا
دل کو موجیں بخشتی ہے برملا
تیری ہر آواز دے مستی مجھے
راز یہ تیرا نہیں ملتا کسے
نام نامی سب بُھلا دیتی ہے تُو
جام مئے جیسے پلا دیتی ہے تُو
پیغامبر
محبوب کی آنکھیں حسن کی پیغامبری کا فریضہ ادا کرتی ہیں
یہ پیغامبر (آنکھیں) جام بھر کر لاتا ہے
اور اپنے ہاتھوں سے ہمیں آ کر دیتا ہے
اے کیف میں مبتلا ہوشیار ہو، پیش گاہِ حسن ہے
وہ آتے ہی لوٹ جاتے ہیں
کامیاب ایک نسل ہونا چاہیے
کھیت کو ہر فصل ہونا چاہیے
چیختی ہے مُدتوں سے بے بسی
ساتھ ان کے فضل ہونا چاہیے
لُوٹتی ہے زندگی کو ہر گھڑی
ہر گھڑی کا قتل ہونا چاہیے
شہیدوں اور غازیوں کو سلام
وطن کے لیے جو لڑے صبح و شام
انہی سرفروشوں کو میرا سلام
وطن کے لیے جو ہوئے ہیں شہید
فرشتے کریں فخر سے ان کی دید
انہوں نے ہے پائی حیاتِ دوام
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تمہی سے گلشن مہک رہا ہے تمہاری نکہت گلاب میں ہے
تمہارے جلوے چمن چمن ہیں، تمہی سے گلشن شباب میں ہے
فضا معطر ہے گیسوؤں سے، جبیں کے انوار سے ہے روشن
سجی ہے توصیف ہر زباں پر، تمہاری مدحت کتاب میں ہے
صفات جتنی ہیں لم یزل کی، انہی کا عکسِ جمیل ہو تم
پیمبروں کا کمال سارا، ہر ایک خوبی جناب میں ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دنیا ہے ایک دشت تو گلزار آپﷺ ہیں
اس تیرگی میں مطلعِ انوار آپﷺ ہیں
یہ بھی ہے سچ کہ آپﷺ کی گفتار ہے جمیل
یہ بھی ہے حق کہ صاحبِ کردار آپﷺ ہیں
ہو لاکھ آفتابِ قیامت کی دھوپ تیز
میرے لیے تو سایۂ دیوار آپﷺ ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ورقِ جاں پہ کوئی نعتؐ لکھا چاہیے ہے
ایسی حسرت کو تقرب بھی سوا چاہیے ہے
ظرفِ بینائی کو دیدارِ شہہﷺ لوح و قلم
وصفِ گویائی کو توفیقِ ثنا چاہیے ہے
حرفِ مِدحت ہو کچھ ایسا کہ نصیبہ کُھل جائے
ایسے ممکن کو فقط حُسنِ عطا چاہیے ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سکون پایا ہے بے کسی نے حدودِ غم سے نکل گیا ہوں
خیالِ حضرتؐ جب آ گیا ہے تو گرتے گرتے سنبھل گیا ہوں
کبھی میں صبحِ ازل گیا ہوں، کبھی میں شامِ ابد گیا ہوں
تلاشِ جاناں میں کتنی منزل خدا ہی جانے نکل گیا ہوں
حرم کی تپتی ہوئی زمیں پر جگر بچھانے کی آرزو تھی
بہارِخُلدِ بریں ملی تو بچا کے دامن نکل گیا ہوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اے شہرِ عِلم و عالمِ اسرارِ خُشک و تر
تُو بادشاہِ دِیں ہے، تُو سُلطانِ بحر و بر
ادراک و آگہی کی ضمانت تِرا کرم
ایقان و اعتقاد کا حاصل تِری نظر
تیرے حروف نُطقِ الٰہی کا معجزہ
تیری حدیث سچ سے زیادہ ہے معتبر
کیا تُو صرف ان کو پکارے گا
جو عبادت میں کثرت کر گئے
ایک کم متقی
مگر زیادہ مطمئن کو
کیوں نہیں؟
میں خالی دامن
اب اس سے بڑھ کے مجھے اور کیا سزا دے گا
وہ بن کے دوست مِرا مجھ کو ہی دغا دے گا
مِری نشانی وہ رکھے گا اپنے پاس، مگر
حسیں گلاب کو اوراق میں دبا دے گا
تڑپتا دیکھ کے مجھ کو وہ خوش تو ہو گا بہت
میں ڈھونڈ پاؤں نہ اس کو پتہ چھپا دے گا
چاہتا جو بھی ہے وہ کہہ کے گزر جاتا ہے
دل حساس اس احساس سے مر جاتا ہے
ذہن میں بات بزرگوں کی تبھی بیٹھتی ہے
جب جوانی کا نشہ سر سے اتر جاتا ہے
جب انا میری ضرورت کا گلا گھونٹتی ہے
رنگ خود داری کے چہرہ کا اتر جاتا ہے
جگ میں ظلم روا تھا، تم خاموش رہے
کتنا جبر ہوا تھا، تم خاموش رہے
جموں و کشمیر کے بے بس لوگوں کا
فلسطین اور شام کے بے کس بچوں کا
نا حق خون بہا تھا، تم خاموش رہے
مظلوموں کی آہیں عرش پہ جا پہنچیں
گاؤں سب نقل مکانی کی طرف دیکھتا تھا
اور میں پیاسا تھا پانی کی طرف دیکھتا تھا
اس کی انگلی میں کوئی اجنبی انگوٹھی تھی
اور میں اس کی نشانی کی طرف دیکھتا تھا
صلح کر لی ہے عدو ملک سے آخر شہ نے
سپہ سالار جو رانی کی طرف دیکھتا تھا
عارفانہ کلام حمد نعت مقبت
غیرت کے بیمار کی باتیں کرتے ہیں
خون کے پُرسہ دار کی باتیں کرتے ہیں
سوچو مولا عابدؑ نے کیا کچھ دیکھا
ہم تو بس دربار کی باتیں کرتے ہیں
جس زندان میں پھٹ جائے دل بچوں کا
اس کے در و دیوار کی باتیں کرتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت مقبت
خاص فرقے نہ ذات کا غم ہے
کربلا کائنات کا غم ہے
درسِ سبطِ نبی نہیں سمجھی
ہم کو ایسی حیات کا غم ہے
بوند بوند آبدیدہ ہے پانی
اور بظاہر فرات کا غم ہے
عارفانہ کلام حمد نعت مقبت
بھلے لگی ہو طبیعت مگر غزل نہ کہو
عزا کے دن ہیں مِرے دوست، آج کل نہ کہو
اگر نماز کو کہتے ہو نیند سے بہتر
صدائے گریہ کو آرام کا خلل نہ کہو
سلام کہنے کی نیت کرو تو یاد رہے
کبھی حسین پہ مرنے کو تم اجل نہ کہو
عارفانہ کلام حمد نعت مقبت سلام
جو تھے جنابِ حضرتِ شبیرؑ کی طرف
کیا دیکھتے وہ منصب و جاگیر کی طرف
یوں خیمۂ حسینؑ کی جانب چلا ہے حُر
اک خواب جیسے جاتا ہو تعبیر کی طرف
اب خود ہی کر یہ فیصلہ تو حق پہ کون ہے
میں آنسوؤں کے ساتھ تو شمشیر کی طرف
عارفانہ کلام حمد نعت مقبت
کرتا ہے کوئی آپ سے فریاد نبیﷺ جی
ہوتا نہیں دل، رنج سے آزاد نبیﷺ جی
جو دیکھناچاہوں، وہ دکھائی نہیں دیتا
دنیا ہے مِری آنکھ کی برباد نبیﷺ جی
جو مرحلہ در پیش ہے وہ طے نہیں ہوتا
ہر ایک قدم ہے، نئی افتاد نبیﷺ جی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جو چل پڑے تو نہ سوچو مسافتیں کیسی
اگر جنوں ہے تو لینی اجازتیں کیسی
سر کے بل ہم تو مدینہ کو جائیں گے فاروق
حضورﷺ نے جو بلایا تو حجّتیں کیسی
مدینہ شہر ہے ایسا کہ اس میں جا کر ہی
پتہ چلے گا ملی ہیں لطافتیں کیسی
وہ ایک پل
میرے صورت گر
تمہیں شاید معلوم نہیں
چاک پہ گھومتے ہوئے
تمہیں دیکھنے کے لیے
میری آنکھیں ایک پل کے لیے تمہاری جانب اٹھیں
گُداز نامہ
گفتگو میری نہیں ہے، یار کی
جستجو میری نہیں ہے، یار کی
“نام ہے تحریر کا ”نامہ گداز
جسم جاں پگھلائے اس نامے کا راز
عاشقوں کا کام ہے جلنا سدا
تُو بھی پیارے! اپنی ہستی کو مٹا
صاحب ہدایت کی نظر
اپنی طرح کی اثر پذیریوں کے ساتھ موجود رہتی ہے
ہمارے رہنما نے ہمیں یہی راہِ ہدایت دکھائی ہے
اور یہی راز سمجھایا ہے
یہاں ہر طرح کے حالات میں رہ کر دیکھا ہے
اپنے کیے کا نتیجہ خود ہی بھگتنا پڑتا ہے
کارِ دنیا نے م<را ہاتھ پکڑ رکھا ہے
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں
دور کہیں کسی جنگل میں
ایک سانپ اپنی محبوبہ کے قامت کو
تیری زلف سے تشبیہ دے رہا ہو گا
تمہارے گھر میں لگی ٹونٹی کا پانی
مِرے مولا مجھے سچ تک رسائی دے
مِرے مولا مجھے سچ تک رسائی دے
سماعت جس سے لرزاں ہے
مجھے وہ سچ سنائی دے
بصارت جس سے خائف ہے
مجھے وہ سچ دکھائی دے
عارفانہ کلام حمد نعت مقبت
ہونٹوں پہ جن کے نام تمنا سے آئے ہیں
رنگیں قبا یہ گُلشنِ زہرا سے آئے ہیں
ہر دور کی جبیں پہ اُجالا انہیں سے ہے
جس بزم میں بھی آئے مسیحا سے آئے ہیں
ہیں آرزوئے کون و مکاں، فخرِ انس و جاں
میدانِ کربلا میں جو تنہا سے آئے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت مقبت مرثیہ
ایک میرے جد، وہ حضرتِ فاخر سے ذی وقار
میرے لیے شرف تو بزرگوں کا افتخار
ماہر تھے فنِ شعر میں ماہر کی یادگار
مداح ان کے لاکھ تو شاگرد بے شمار
چلتی تھی ان کی تیغِ قلم ہر زمیں میں
جبریل فن کے ڈھونڈتی تھی پر زمیں میں
عارفانہ کلام حمد نعت مقبت سلام
سِناں کی نوک پہ آغاز اک خطاب ہوا
ستم کی ہار ہوئی، صبر کامیاب ہوا
دمشق و کوفہ و یثرب میں جو چھپایا گیا
وہ بُغض آ کے سرِ دشت بے نقاب ہوا
اسی کے نور کا پہرہ تھا سبز خیموں پر
لبِ فرات جو مہتاب محوِ خواب ہوا
عارفانہ کلام حمد نعت مقبت
ٹکڑے ہو ہو کے سرِ دشت بکھرنے کے لیے
ہم تو آئے ہیں یہاں آپ پہ مرنے کے لیے
لیجیۓ ہم سُمِ اسپاں سے کچل جاتے ہیں
آپ زحمت نہ کریں دفن بھی کرنے کے لیے
کھینچ لائی ہے یہاں، غازۂ خونیں کی کشش
آ گئے ہم بھی یہاں بننے سنورنے کے لیے
عارفانہ کلام حمد نعت مقبت
مجرئی جوہرِ قرطاس و قلم کُھلتے ہیں
طبل بجتا ہے قلمرو میں عَلم کھلتے ہیں
آمدِ ماہِ محرم سے گھروں میں اپنے
درِ فردوس کی صورت درِ غم کھلتے ہیں
یہ بھی اسرارِ دعا بر سرِ مجلس ہی کھلے
لب کھلیں یا نہ کھلیں بابِ کرم کھلتے ہیں
پگڈنڈی کا سفر
کہیں بل کھاتی اور
کہیں سیدھی
یہ پگڈنڈی کہیں دور
سفر کو جاتی ہے
دو راہی ساتھ ہو لیتے ہیں
ساقی نامہ
ساقیا! مجھ کو بنا کر رازدار
دُور کر دے خود نمائی کے خمار
ساقیا! مجھ کو بَتا اس کے رموز
راہرو جو ہو گیا جگ سے فنا
ساقیا! اس عشق سے آگاہ کر
شعورِ خاص سے الجھے
شعورِ عام سے الجھے
ہمارا مسلک پرواز
کس کس دام سے الجھے
صبا جب زلفِ جاناں کا، پیامِ مشکبُو لائی
کبھی ہم کفر سے الجھے
مثلِ طائر ہیں میرے خیال و گماں
میری پرواز کا نام ہے لا مکاں
موج در موج ایک بحر ہے بیکراں
مجھ کو پہنچا دیا میرے دل نے کہاں
بے خبر ہوں میں آغاز و انجام سے
چار سُو ہے کوئی سیلِ آبِ رواں
اقتباس از مثنوی عشق نامہ
خدا تعالیٰ عشق میں سے آدم کو پیدا کیا
جس وجہ سے اسے اشرف المخلوقات بنایا
خدا تعالیٰ اسے عشق کی امانت عطا فرمائی
اور اس میں اپنے سارے مخفی راز چھپا دئیے
آدمؑ کے گھر اپنے آپ کو آباد کیا
بے مثال کو مثال میں لے آیا
مرشد ہادی
اپنے مرشد ہادی کے بغیر کسی راہ کے انتخاب سے توبہ کرتا ہوں
اور غیر کے خیالِ خام سے بھی تائب ہوں
میں جیسی بھی ہوں، آپ کی ہوں
اور منزلِ وصال سے دور نہ کرنا
آپ کے حسنِ بے مثال پر بک گئی ہوں
چلی ہوا تِرے منہ سے جب انکشاف چلے
مِرے بھرے ہوئے کیسٹ مِرے خلاف چلے
گھنے درخت بھی کرتے ہیں اس کی آؤ بھگت
جو دھوپ چھاؤں میں لے کر تِرا لحاف چلے
اڑے تو بادِ مخالف سے اختلاف رہا
چلے تو خود سے بھی ہم کر کے انحراف چلے
روز کیا خواب کی تعبیر بدل جاتی ہے
ہاتھ اور پاؤں کی زنجیر بدل جاتی ہے
جاں پناہ آپ کی پُر جوش تقاریروں سے
کب مِرے شہر کی تقدیر بدل جاتی ہے
شعر کہنے کی مشقت کو اٹھا لینے سے
لکھی قسمت کی یہ تحریر بدل جاتی ہے
ہماری لاش کی تصویر بھی اتاری گئی
پھر اس کے پاؤں سے زنجیر بھی اتاری گئی
شہید ہونے کا پہلے ہُنر اتارا گیا
پھر آسمان سے شمشیر بھی اتاری گئی
ثمر کو عزمِ مصمم کے ساتھ جوڑا گیا
قلم اٹھانے پہ تحریر بھی اتاری گئی
مِری نظر میں وہ معتبر رہنما نہیں ہے
سفر کے پیچ اور خم کا جس کو پتا نہیں ہے
نہ جانے کیوں سارے لوگ پتھر لیے ہوئے ہیں
ہمارے ہاتھوں میں تو کوئی آئینہ نہیں ہے
اجالے کرتے ہیں رقص ہر سو حریم دل میں
چراغ زخم جگر ابھی تک بجھا نہیں ہے
بہت بار گراں یہ زندگی معلوم ہوتی ہے
کہ غم کا پیش خیمہ ہر خوشی معلوم ہوتی ہے
کسی سے سرگزشت غم بیاں کرتا ہوں جب اپنی
کہانی وہ سراسر آپ کی معلوم ہوتی ہے
ہے محرومی سی محرومی تو مجبوری سی مجبوری
کہ ہر ساعت مصیبت میں گھری معلوم ہوتی ہے
حادثوں سے بے خبر تھے لوگ دھرتی پر تمام
آسماں کی نیلگوں آنکھوں میں تھے منظر تمام
رفتہ رفتہ رسم سنگباری جہاں سے اٹھ گئی
دھیرے دھیرے ہو گئے بستی کے سب پتھر تمام
تشنہ لب دھرتی پہ جب بہتا ہے پیاسوں کا لہو
مدتوں مقتل میں سر خم رہتے ہیں خنجر تمام
کیا کر لے گی ہجر نصیبی، فرض کِیا
فرض کِیا، کیا جاں لے لے گی، فرض کیا
اتنی بھیڑ کہ جس میں خلقت کھو جائے
میں نے خود کو ایک اکیلی فرض کیا
تیری چپ کو اور کہاں تک سنتی میں
فرض کِیا، انکار حبیبی فرض کیا
سمٹوں تو صفر سا لگوں پھیلوں تو اک جہاں ہوں میں
جتنی کہ یہ زمین ہے اتنا ہی آسماں ہوں میں
میرے ہی دم قدم سے ہیں قائم یہ نغمہ خوانیاں
گلزار ہست و بود کا طوطیٔ خوش بیاں ہوں میں
مجھ ہی میں ضم ہیں جان لے دریا تمام دہر کے
قطرہ نہ تو مجھے سمجھ اک بحر بیکراں ہوں میں
اداکاری میں بھی سو کرب کے پہلو نکل آئے
کہ فنکارانہ روتے تھے مگر آنسو نکل آئے
ہمیں اپنی ہی جانب اب سفر آغاز کرنا ہے
سو مثلِ نکہتِ گُل ہو کے بے قابو نکل آئے
یہی بے نام پیکرِ حُسن بن جائیں گے فردا کا
سخن مہکے اگر کچھ عشق کی خوشبو نکل آئے
D Detergent
دیو چناروں والے چوک میں
سگنل سلگا
سُرخ ہوا
تو شُست لگا کر بیٹھے وائپر باز نے
کالی گاڑی کو تحویل میں لے کر
جتنے دن کا ساتھ لکھا تھا، سات رہے
اب کچھ دن تو آنکھوں میں برسات رہے
اب نا شُکری کرنا اور معاملہ ہے
حاصل ہم کو عشق رہا، ثمرات رہے
اندر کی دیوی نے یہ چُمکار، کہا
نرم ہے دل تو کاہے لہجہ دھات رہے
عارفانہ کلام حمد نعت مقبت
طلوعِ صُبح اور چوکھٹ نبیﷺ کی
میں کب سے منتظر تھی اس گھڑی کی
ہرے گُنبد کو چُھو کر آ رہی ہے
ہوا میں لہر ہے آسودگی کی
سبھی راہیں یہاں کی معتبر ہیں
سمیٹوں خاک میں کس کس گلی کی
عارفانہ کلام حمد نعت مقبت
ضرورت ہے سرکارﷺ خیرات کی
نظر مجھ پہ بھی ہو عنایات کی
میں خاموش رہتا ہوں آقاﷺ مرے
زباں سب سمجھتے ہیں جذبات کی
ہو دیدار سرکارﷺ کا خواب میں
تمنا مجھے ہے ملاقات کی
عارفانہ کلام حمد نعت مقبت
خوابوں میں کبھی جس کے مدینہ نہیں آیا
سمجھو، اُسے سونے کا قرینہ نہیں آیا
گر آنکھ نہ ہو اشک فشاں یادِ نبیؐ میں
دل میں بھی محبت کا خزینہ نہیں آیا
آقاؐ ہیں مِرے ایسے سخی جن کے لبوں پر
سائل کے لیے بھولے سے بھی نہ نہیں آیا
عارفانہ کلام حمد نعت مقبت
ہر اشک تِرے سامنے تفسیرِ دعا ہے
احساسِ ندامت میں نہاں تیری عطا ہے
ہر کام کا مقصود مجھے تیری رضا ہو
ہر لمحہ یہ احساس ہو تو دیکھ رہا ہے
حیرت بھی تِرے در پہ ہے اک رنگِ عبادت
دربار میں تیرے تو خموشی بھی صدا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت مقبت
کرتے ہیں کرم جس پہ بھی سرکارِ مدینہ
ہوتا ہے نصیب اس کو ہی دیدارِ مدینہ
پڑھتا ہے درودؐ آپ کی جو ذات پہ ہر دم
ملتا ہے اسے سایۂ دیوارِ مدینہ
اس شخص کو دنیا کا کوئی غم نہیں ہوتا
وہ شخص جو رہتا ہے طلبگارِ مدینہ
جوش ملیح آبادی کی وفات کے بعد ان کی یاد میں کہے گئے چند اشعار
میرے بابا مجھے سینے سے لگا لے اپنے
تیز طوفان ہے، سائے میں چھپا لے اپنے
میری آنکھوں سے برستی ہے گھٹا اشکوں کی
دل کے ٹکڑے کو کلیجے سے لگا لے اپنے
اب کوئی بھی تو نہیں غم پہ میرے افسردہ
رب کو کہہ کر ہی مجھے پاس بلا لے اپنے
ہمارے پاس کئی اور زاویے بھی ہیں
ہم اپنی آنکھ سے دنیا کو دیکھتے بھی ہیں
چلو کہ فیصلہ کر لیں ہم آج آپس میں
یہاں پہ سنگ بھی موجود آئینے بھی ہیں
ابھی سے خواب کشش بھر رہے ہیں آنکھوں میں
ابھی تو عشق میں ہم تم نئے نئے بھی ہیں
گرتے گرتے سنبھل رہا ہوں میں
دسترس سے نکل رہا ہوں میں
دھوپ کا بھی عجب تماشہ ہے
اپنے سائے پہ چل رہا ہوں میں
گفتگو ہے میری گلابوں سی
شخصیت میں کنول رہا ہوں میں
طوفان تھم چکا ہے مگر جاگتے رہو
کس وقت کی ہے کس کو خبر جاگتے رہو
شعلے بجھا کے ہم سفرو مطمئن نہ ہو
پوشیدہ راکھ میں ہے شرر جاگتے رہو
اب روشنی میں بھی ہے اندھیروں کا مکر و فن
کیا اعتبار شام و سحر جاگتے رہو
ہاتھ تجھ سے چُھڑا دیا میں نے
تجھ کو یکسر بُھلا دیا میں نے
دلِ مُضطر قریب تھا تیرے
دُور اس کو ہٹا دیا میں نے
تجھ کو دیتی رہی میں سب خوشیاں
اور خود کو رُلا دیا میں نے
بے سبب تو نہ تھیں تِری یادیں
تیری یادوں سے کیا نہیں سیکھا
ضبط کا حوصلہ بڑھا لینا
آنسوؤں کو کہیں چھپا لینا
کانپتی ڈولتی صداؤں کو
چپ کی چادر سے ڈھانپ کر رکھنا
ہو گیا زخم مِرے دل کا ہرا شام ڈھلے
یاد نے آ کے تِری چھیڑ دیا شام ڈھلے
لمحہ لمحہ مِرے نزدیک چلی آتی ہے
جانے والے تِرے قدموں کی صدا شام ڈھلے
پھر خیالوں میں سمایا تِرا چندن سا بدن
پھر مہک اٹھی ہے ویران فضا شام ڈھلے
چھوڑ کر شہر بیابان میں آ جاتا ہے
چاک جس کے بھی گریبان میں آ جاتا ہے
تُو اسے کچھ بھی کہے پر یہ قصیدہ گوئی
اک رویہ ہے جو دربان میں آ جاتا ہے
تُو بچھڑ جا کہ تِرا خوفِ جدائی اکثر
دل سے جاتا ہے تو اوسان میں آ جاتا ہے
دنیا میں کیا کسی سے سروکار ہے ہمیں
تجھ بِن تو اپنی زیست ہی دشوار ہے ہمیں
تُو ہی نہیں تو جان تِری جان کی قسم
یہ جان کس کے واسطے درکار ہے ہمیں
گرتے ہیں دکھ سے تیری جدائی کے ورنہ خیر
چنگے بھلے ہیں کچھ نہیں آزار ہے ہمیں
عارفانہ کلام حمد نعت مقبت
سب مشکلوں کا حل تُو ہی ربِ کریم ہے
اور ذات پاک تیری غفور رحیم ہے
ذی قدر و ذی جلال تُو ذی شان و ذی شرف
تیری ہی بندگی تو راہِ مستقیم ہے
عزم و یقین و ضبط کا ہر مسئلے کا حل
اک درس گاہ تیرا کلام کریم ہے
عارفانہ کلام حمد نعت مقبت
جب تلک ذکرِ نبیﷺ وردِ زباں رہتا ہے
قلب پر نُور اترنے کا سماں رہتا ہے
آنکھ لوٹ آئی مدینے کی زیارت کر کے
اک مِرا دل ہے جو ہر وقت وہاں رہتا ہے
یاد سے آپؐ کی مہکا ہے یہ صحرائے خیال
آپؐ کے ذکر سے ہی بخت جواں رہتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت مقبت
امید میں رکهتا ہوں جنابِ احدی سے
الفت ہے محمدؐ سے، محبت ہے علیؑ سے
کیا دشمن گمراہ کی ہے اصل و حقیقت
زنہار میں ڈرتا نہیں شیطان قوی سے
طفلی سے فدا نام محمدﷺ پہ ہوا ہوں
اسلام پہ شیدا ہوں سو جان سے سو جی سے