کیا تُو صرف ان کو پکارے گا
جو عبادت میں کثرت کر گئے
ایک کم متقی
مگر زیادہ مطمئن کو
کیوں نہیں؟
میں خالی دامن
کچھ بھی تو نہیں رکھتی
نہ شبوں کا گداز
نہ سحر خیزی کا اہتمام
بس اک سلیقہ ہے جو تیری ہی عطا ہے
میں نے تو عمر بھر اس یقین کی پرورش کی ہے کہ
مجھے بھی نفس مطمئنہ والوں میں بلایا جائے گا
میری جھولی میں محبت کے آبدار موتی ہیں
تُو نے مجھ کمزور کو محبت کرنا سکھایا اور توانا کیا
میں وہ روح ہوں
جس نے میسر کو عطا اور فراواں جانا
اور اس کفایت پہ شکر کا پانی چھڑکا
میرے خدا
میرے دل کی دھڑکنوں سے اٹھتی چیخوں کے واحد سامع
میرے دل میں تجھ سے زیادہ تو کسی کی
چاہت بھی نہیں ہے
اس کی بھی نہیں جو تیرے عطا کیۓ زمانوں
میں مسندِ محبت پہ بیٹھا ہے
مدیحہ مغل
No comments:
Post a Comment