عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
یہ حقیقت یہ بلندی اور یہ شانِ حسینؑ
بن گیا اسلام کی بنیاد ایمانِ حسینؑ
کربلا کی جلوہ گہہ یا ہے میدانِ حسینؑ
معرفت کی انتہا ہے نورِ ایمانِ حسینؑ
عصر کو عاشور کی کیونکر نہ ہو جاتا وفا
وعدہ پیغمبریﷺ تھا عہد و پیمانِ حسینؑ
جھکتے جھکتے جھک گئی در پر جبینِ کائنات
رفتہ رفتہ ہو گیا تعمیر ایوانِ حسینؑ
فہم انسان سے بھی اونچی ہیں یقیں کی منزلیں
حدِ امکان بنی ہے حدِ امکانِ حسینؑ
سر بسجدہ ہیں پیمبرؐ اور نواسہ پشت پر
اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی بھلا شانِ حسینؑ
بہتی دھاروں میں لہو کی رفتہ رفتہ ڈوب کر
خوشنما ہوتی گئی زلفِ پریشانِ حسینؑ
اب تو کوئی قوم بھی باہر نکل سکتی نہیں
چھا گیا خالق کی رحمت بن کے دامانِ حسینؑ
آنسوؤں میں روحِ غم اور دل میں حق کی روشنی
ضوفشاں ہے آج بھی شمعِ شبستانِ حسینؑ
ڈوب کر خونِ وفا میں بن گیا اک یادگار
ہے شفق کے رنگ میں عکسِ گریبانِ حسینؑ
آیتیں نیزے پہ پڑھ کے کر دیا حق کو بلند
اب کلام اللہ ہے لیکن بعنوانِ حسینؑ
دو وسیلے ہیں گنہگارانِ امت کے لیے
حضرت زینبؑ کی چادر اور دامان حسینؑ
جلوے یکجا ہو رہے ہیں قلب ماتھر کے لیے
روشنی پہونچا رہی ہے شمعِ عرفانِ حسینؑ
ماتھر لکھنوی
وشوناتھ پرشاد
No comments:
Post a Comment