تم نے دیکھا ہے کبھی غور سے کیا لگتا ہے
شام کے وقت دِیا شمس نما لگتا ہے
میں نہیں چاہتا چھوڑوں یہ اداسی تیری
دل مِرا اب بھی کہیں تیرے سِوا لگتا ہے
چاہے جتنا بھی پرانا ہو کسی کا چہرہ
اس کی گلیوں سے گزرتے ہی نیا لگتا ہے
نیند آتی ہے مجھے رات بڑی مشکل سے
پھر کوئی خواب مِری آنکھ میں آ لگتا ہے
کب تلک لوٹ کے آؤ گے بچھڑنے والو
خالی رستے پہ کھڑا شخص بُرا لگتا ہے
پڑھ کے وہ اِسم جو پھونکا ہے بدن پر طارق
گرم جھونکا بھی مجھے سرد ہوا لگتا ہے
طارق عزیز سلطانی
No comments:
Post a Comment