اپنی انا سے بر سر پیکار میں ہی تھا
سچ بولنے کی دھن تھی سر دار میں ہی تھا
سازش رچی گئی تھی کچھ ایسی مِرے خلاف
ہر انجمن میں باعثِ آزار میں ہی تھا
سو کرتبوں سے زخم لگائے گئے مجھے
شاید کہ اپنے عہد کا شہکار میں ہی تھا
لمحوں کی بازگشت میں صدیوں کی گونج تھی
اور آگہی کا مجرم اظہار میں ہی تھا
تہذیب کی رگوں سے ٹپکتے لہو میں تر
دہلیز میں پڑا ہوا اخبار میں ہی تھا
اجمل سفر میں ساتھ رہیں یوں صعوبتیں
جیسے کہ ہر سزا کا سزاوار میں ہی تھا
کبیر اجمل
No comments:
Post a Comment