تمہارے ہی ہم نام کے سنگ رہنا
جدائی کے لمحے جو نازل ہوئے تو
وہ قدموں کی چھاپوں پہ پاؤں کو دھر کر
جہاں تیرے نقشِ قدم جڑ گئے تھے
اسی باغ میں جس میں تیرا و میرا
سفر دو گھڑی کا تھا لکھا مِری جاں
اسی ریت پر جانِ جاں توں ذرا تک
ہزاروں پرندوں کے پر گر گئے ہیں
گلِ چیں کے پیڑوں پہ اگتے وہ پتے
تِرے ہجر میں وہ سبھی جڑھ گئے ہیں
پتہ یہ مجھے بھی نہیں تھا کہ ہجراں
یوں جلدی میں وارد بھی ہو جائے گا
مِری روح کا اصل محور، وہ مرکز
یوں مٹی میں جا کر ہی کھو جائے گا
نگاہیں تِرے ہم رخی کی اے جاناں
یہ مانا کہ تجھ سے بہت مختلف ہیں
مگر ہم اسے یوں گلے سے لگا کر
تِرے نام واریں گے اپنا یہ جیون
اسی کام سے کچھ تسلی تو ہو گی
یہ مانا کہ تو اب میسر نہیں ہے
تِری جاناں کوئی شبیہہ نہیں تو
تمہارے ہی ہمنام کے ساتھ چل کر
جگر کو کسی حد تسلی تو ہو گی
کوئی جاناں تیری شبیہہ نہ ہو گی
علیم ارحم
No comments:
Post a Comment