اب وہ مہکی ہوئی سی رات نہیں
بات کیا ہے کہ اب وہ بات نہیں
پھر وہی جاگنا ہے دن کی طرح
رات ہے اور جیسے رات نہیں
بات اپنی تمہیں نہ یاد رہی
خیر جانے دو کوئی بات نہیں
کچھ نہیں ہے تو یاد ہے ان کی
ان سے ترکِ تعلقات نہیں
پھر بھی دل کو بڑی امیدیں ہیں
گو بہ ظاہر توقعات نہیں
عشق ہوتا ہے خود بخود پیدا
عشق کے کچھ لوازمات نہیں
ایسے فضلی کے شعر کم ہوں گے
جن میں کچھ دل کی واردات نہیں
سید فضل کریم فضلی
No comments:
Post a Comment