رابطے اتنے رکھیں جتنے سنبھالے جائیں
دل کے اطراف رہیں، ڈھنگ سے پالے جائیں
بَیر سے لڑنے کے ہتھیار بھی ڈھالے جائیں
اب محبت کے بھی ہتھیار نکالے جائیں
رشتے بنتے ہیں، ہمیشہ کے لئے بنتے ہیں
گر بکھر جائیں تو مشکل سے سنبھالے جائیں
تیرے آنکھوں کے سمندر مجھے دریا کردیں
میرے جذبات کنارے سے بہا لے جائیں
درد مندی سے محبت کا بھرم باقی ہے
اس بُرے دور میں جذبات اُجالے جائیں
ہم کسی در پہ نہیں جاتے نہی مانگتے ہیں
ہم فقیروں سے شہنشاہ بھی دعا لے جائیں
جس میں تشنہ ہو بھلا سب کا وہی کر ڈالیں
فیصلے اب نہ کسی بات پہ ٹالیں جائیں
مسعود بیگ تشنہ
No comments:
Post a Comment