زخم دل کے یوں دکھانا چاہیے
رنج میں بھی مسکرانا چاہیے
رُوٹھے ساجن کو منانا چاہیے
وعدۂ اُلفت نبھانا چاہیے
سننے والا سُن کے جس کو داد دے
حال دل کا یوں سنانا چاہیے
صرف ہاتھوں کو ملانا کچھ نہیں
دل کو بھی دل سے ملانا چاہیے
لوگ کہتے ہیں زمانے کو بُرا
خود کو بھی اچھا بنانا چاہیے
کام کرنے کا سلیقہ بھی تو ہو
سیکھنے کو اِک زمانہ چاہیے
ہم درخشاں ٹھہرے موضوعِ سخن
کچھ تو دنیا کو فسانہ چاہیے
درخشاں صدیقی
No comments:
Post a Comment