اچھا ہمارے قرب سے پہلو تہی سہی
تم چاہتے ہو اب نہ ملیں تو یہی سہی
ہر بات ہم نے اپنی بتا دی دی ہے دوستو
اک داستانِ عشق مگر ان کہی سہی
کھل کر کہا ہے اس نے ہمیں آج بے وفا
پوری ہوئی ہے آج کسر یہ رہی سہی
ہم گنگ رہ کے اپنی گزاریں گے زندگی
اس شہرِ بے حیا میں سخن کی نہی سہی
دو حرف کہہ کے ہم کو تسلّی تو دیجیے
دل سے موافقت نہ سہی دلدہی سہی
کیا کیجیے کہ دورِ جہالت ملا سو اب
شمشیرِ بے نیام کی شاہنشہی سہی
چلیے نا بزمِ یار میں آصف جو کچھ نہیں
اس حسنِ بے حجاب کی کچھ آگہی سہی
آصف اکبر جیلانی
No comments:
Post a Comment