تیرے خیال سے یوں سجائی تمام رات
اک بت کو دیکھنے میں بتائی تمام رات
وہ اجنبی تھا صبح یہ معلوم ہو گیا
تصویر جس کی ہم نے بنائی تمام رات
جانے میں کس قفس کے خیالوں میں قید تھا
دیوار اپنے گھر کی جلائی تمام رات
زندہ رہے گا جوش گلابوں میں اس لیے
اک داستان شمع سنائی تمام رات
ہم مسکرا کے سب سے سویرے ملے مگر
سینے میں ہم نے کیسے چھپائی تمام رات
تیرے خیال و خواب میں آتے مگر کبھی
دیتی نہیں ہے ہم کو رہائی تمام رات
سناٹا اس قدر تھا کہ ہر شاخ ہر کلی
جھک جھک کے مانگتی تھی دہائی تمام رات
راسخ ہوا نے شاخ سے پتے گرا دئے
اور یاد سب کہانی دلائی تمام رات
راسخ شاہد
No comments:
Post a Comment