شبنمی ہونٹ نے چُھوا جیسے
کان میں کچھ کہے ہوا جیسے
لے کے آنچل اُڑی ہوا کچھ یوں
سیر کو نکلی ہو صبا جیسے
اس سے کچھ اس طرح ہوا ملنا
مل کے کوئی بچھڑ رہا جیسے
اک طبیعت تھی ان کی، اک میری
میں ہنسی ان پہ بل پڑا جیسے
لوگ کہہ کر مکر بھی جاتے ہیں
آنکھ سچ کا ہے آئینہ جیسے
وہ کناروں کے بیچ کی دوری
ہے گوارا یہ فاصلہ جیسے
شہر میں بم پھٹا تھا کل لیکن
دل ابھی تک ڈرا ہوا جیسے
دیکھ کر آدمی کی کرتوتیں
آتی مجھ کو رہی حیا جیسے
ٹُوٹ کر شاخ سے گرا پتّہ
وہ خزاں سے ہی ڈر گیا جیسے
جس سہارے میں پختگی ڈھونڈی
تھا وہی ریت پر کھڑا جیسے
دیوی ناگرانی
دیوی نانگرانی
No comments:
Post a Comment