خبر ملی ہے کہ اٹھتا ہے دھواں پانی سے
آتشِ عشق بجھے، ممکن ہے کہاں پانی سے
میں زرِ اشک سنبھالوں تو ہنر ور ٹھہروں
میں اگر اشک اجالوں تو گماں پانی سے
ایک برسات ہر اک لمحہ رہے چاروں اور
جانے کیوں خالی رہے من کا جہاں پانی سے
میرے احباب مِرے دکھ کو جلا دیں گے کہیں
میں مٹا پاؤں گا کیا غم کے نشاں پانی سے
آگ مُٹھی میں پکڑ لیتا ہوں بعض اوقات
جلنے لگتی ہے کبھی میری زباں پانی سے
تم کو احساس پیاسوں کا ذرا سا بھی نہیں
بات کرتا ہی نہیں میرا زماں پانی سے
اب اسے روکنا ممکن ہی نہیں آنکھوں میں
میں نے اک سودا کیا، سیلِ رواں، پانی سے
خوش نمائی ہے الگ بات، محبت ہے الگ
آگ مہکی ہے کہیں سُود و زیاں پانی سے
بھیگے بھیگے مِرے ارمان انیس احمد ہیں
میں بناتا ہوں جو خوابوں کا سماں پانی سے
انیس احمد
No comments:
Post a Comment