کب سے ہیں اس مکان پہ تالے لگے ہوئے
آنگن میں بھی ہیں پیڑ سنہرے لگے ہوئے
بے فکر سو رہے ہیں سبھی خواب گاہ میں
ہر موڑ پر ہیں امن کے دستے لگے ہوئے
دل چاہتا ہے چوم لیں ہم ان کو پیار سے
پھولوں کے خوشنما ہیں جو گملے لگے ہوئے
سب کچھ سمیٹ کر چلو اب گاؤں کو چلیں
ہیں کلفتوں کے شہر میں میلے لگے ہوئے
داخل کہاں سے ہوں گے بھلا آپ سوچ لیں
ہر سمت مکڑیوں کے ہیں جالے لگے ہوئے
موسم یہاں کا دیکھ ہے کس قدر خوف ناک
راہوں میں پر خطر بھی ہیں کہرے لگے ہوئے
اس دور میں بھی ذہن پہ وحشت سوار ہے
گھوڑے کے نال اب بھی ہیں درپے لگے ہوئے
تابش ذرا بھی فکر نہ کر انتظام کی
ہر گام پہ ہیں چاہنے والے لگے ہو ئے
تابش رامپوری
No comments:
Post a Comment