Sunday, 28 May 2023

کب سے ہیں اس مکان پہ تالے لگے ہوئے

 کب سے ہیں اس مکان پہ تالے لگے ہوئے

آنگن میں بھی ہیں پیڑ سنہرے لگے ہوئے

بے فکر سو رہے ہیں سبھی خواب گاہ میں

ہر موڑ پر ہیں امن کے دستے لگے ہوئے

دل چاہتا ہے چوم لیں ہم ان کو پیار سے

پھولوں کے خوشنما ہیں جو گملے لگے ہوئے

سب کچھ سمیٹ کر چلو اب گاؤں کو چلیں

ہیں کلفتوں کے شہر میں میلے لگے ہوئے

داخل کہاں سے ہوں گے بھلا آپ سوچ لیں

ہر سمت مکڑیوں کے ہیں جالے لگے ہوئے

موسم یہاں کا دیکھ ہے کس قدر خوف ناک

راہوں میں پر خطر بھی ہیں کہرے لگے ہوئے

اس دور میں بھی ذہن پہ وحشت سوار ہے

گھوڑے کے نال اب بھی ہیں درپے لگے ہوئے

تابش ذرا بھی فکر نہ کر انتظام کی

ہر گام پہ ہیں چاہنے والے لگے ہو ئے


تابش رامپوری

No comments:

Post a Comment