یہی بس کام کرنے میں لگے ہیں
محبت عام کرنے میں لگے ہیں
یہ دل خستہ عمارت بن چکا ہے
اسے نیلام کرنے میں لگے ہیں
یہی تو نیک نامی ہے کہ کچھ لوگ
ہمیں بدنام کرنے میں لگے ہیں
کہیں وہ ہو چکا ہے رام پہلے
جسے ہم رام کرنے میں لگے ہیں
ہمیں بخشی گئی جو صبحِ روشن
اسی کو شام کرنے میں لگے ہیں
ہمارا عشق کُندن ہو گیا تھا
اب اس کو خام کرنے میں لگے ہیں
وہ اس قابل نہیں قیصر کہ جس کو
یہ دل انعام کرنے میں لگے ہیں
قیصر مسعود
No comments:
Post a Comment